نیوزی لینڈ کے دورہ منسوخی کے اثرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 کرکٹ پاکستان کے عوام کیلئے جنون کی حیثیت رکھتا ہے،مذہب اور قومی زبان کے علاوہ تیسری اہم ترین چیز کرکٹ ہی ہے جس نے پاکستانی قوم کو باہم مربوط اور جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔

پاکستانی مرد، خواتین، بچے، بوڑھے سبھی کرکٹ کی محبت میں مبتلا نظر آتے ہیں اور جب قومی کرکٹ ٹیم میدان میں اترتی ہے تو شہری تمام کام کاج چھوڑ کرمیچز دیکھنے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اس موقع پر قوم کا جذبہ دیدنی ہوتاہے۔بادی النظر میں دیکھا جائے توکرکٹ محض ڈیڑھ درجن ممالک کے گرد گھومتا ہے لیکن حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو کرکٹ کو پوری دنیا کے دیگر تمام کھیلوں کے مقابلے میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔

حال ہی میں نیوزی لینڈ کی ٹیم 18 سال بعد پاکستان آئی اور اپنی پریکٹس میں بھی حصہ لیا اور میچ سے چند لمحے قبل دورہ منسوض کردیا جس سے ناصرف پاکستان بلکہ کرکٹ سے محبت کرنے والے دنیا کے تمام ممالک کے شائقین کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ کرکٹ کے چاہنے والوں کی دل آزاری ہوئی۔

یہاں ایک سوال ابھرتا ضرور ہے کہ موجودہ دور کی عالمی سیاست جس میں ففتھ جنریشن وار کی آمیزش ہوچکی ہے وہ بتدریج بڑھتی جارہی ہے اور پاکستان نیوزی لینڈ سیریز کی منسوخی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتی ہے۔ آج سے چند دہائیاں قبل اس قسم کے مذموم مقاصد کے حصول میں مخالفین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اکثر اوقات ایسے مقاصد ناکام بھی ہوجاتے تھے لیکن آج کے دور میں مخالف قوتیں اور دشمن ممالک ایک دوسرے کیلئے ہر قسم کے مسائل اور ہرطرح کی بدنامی کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کو کیوی ٹیم کی پاکستان آمد سے قبل گزشتہ ماہ اگست میں ایک جعلی پیغام مبینہ طور پرکالعدم تحریک طالبان کے احسان اللہ احسان کے نام سے موصول ہوا جس میں یہ بتایا گیا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو پاکستان میں خطرہ ہوگااورکیوی بورڈ کو کہا گیا کہ آپ کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے گریز کریں اور مزید ایک پیغام کیوی اوپنر مارٹن گپٹل کی اہلیہ کے ای میل پر موصول ہوا جس میں تحریک لبیک کا نام استعمال کیا گیا۔

اس طریقے کے جتنے بھی دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے ان کا مرکز بھارت میں پایا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اس سیریز کو منسوخ کروانے میں ملوث ہے لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کرکٹ بورڈ کو پہلی ای میل کی اطلاع موصول ہوئی تو اس پر چاہیے تھا کہ نہایت چابک دستی سے اس کا توڑ کرنے کیلئے کام شروع کردیا جاتا ۔

پاکستان کو کیوی بورڈ اور حکومت کو ساتھ لیکر مروجہ عالمی طریقہ کار کے مطابق لمحہ بہ لمحہ سیکورٹی رسک اسسمنٹ کرتے جاتے اور نیوزی لینڈ کو اعتماد میں لے کر اقدامات اٹھائے جاتے اور نیوزی لینڈ کو بھی یہ پیشکش کی جاتی کہ چاہے آپ خود سیکورٹی کا جائزہ لیں اور اس میں ہماری جومعاونت درکار ہوگی وہ ہم فراہم کریں گے اور عین ممکن تھا کہ نیوزی لینڈ بروقت معاملے کی تہہ تک پہنچ سکتا تھا کہ یہ پیغامات کہاں سے آرہے ہیں،اگر ایسا کیا جاتا تو شائد نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان منسوخ ہونے سے روکا جاسکتا تھا اور بھارت کے مذموم ارادوں پر پانی پھیرا جاسکتا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ نیوزی لینڈ ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اگر بروقت کیوی حکومت سے درجہ بدرجہ رابطہ کیا جاتا تو اس صورت میں نیوزی لینڈ یقیناً سائنسی بنیادوں پراس چیز کا باآسانی اندازہ لگاسکتا تھا کہ یہ پیغامات بھارت سے ارسال کئے گئے ہیں اور ایسی صورت میں خدشات کو دور کیا جاسکتا تھا تاہم نیوزی لینڈ کے دورہ منسوخی سے پاکستان کو ناصرف شدید ھچکا لگا بلکہ یہ معاملہ پاکستان کے مثبت تشخص پر بھی ایک داغ چھوڑ گیاہے۔

نیوزی لینڈ کے دورہ منسوخی سے پاکستان کو بڑا مالی نقصان تو ہوچکا ہے اور اس دورہ کی منسوخی کے اثرات مستقبل میں بھی پاکستان پر مرتب ہوسکتے ہیں کیونکہ اس دورہ کی منسوخی کو جواز بناکر غیر ملکی سرمایہ کار ذہنی دباؤ کی وجہ سے پاکستان میں انویسٹمنٹ سے اجتناب کرسکتے ہیں  ۔

پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے اور کرکٹ کی کھوئی ساکھ بحال کرنے کیلئے پاکستان کو مستقبل میں کرکٹ ٹورز سے قبل جامع حکمت عملی کے تحت متعلقہ حکومتوں اور بورڈز کے ساتھ ہر سطح پر روابط قائم کرکے دورہ سے قبل پیش آنے والے ممکنہ خدشات کے ازالے کیلئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ آئندہ ایسی صورتحال سے بچا جاسکے۔

Related Posts