انجام گلستاں کیا ہوگا ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی حادثہ رونما ہو تو متعلقہ حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس حادثے کی مکمل تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائے جائیں لیکن کراچی میں عید الفطر سے قبل پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کے بعد حکومت پاکستان کے ایک اہم وزیر کی طرف سے بغیر تحقیق اور تصدیق ایک اہم انکشاف سامنے آیا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے سیکڑوں پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔

اس انکشاف کی ایک اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ موجودہ حکومت نے طیارہ حادثے کا الزام کسی نہ کسی طرح گزشتہ حکومت پر عائد کرنا تھا ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ حکومتوں نے بھی کوئی خاطر خواہ کارنامے انجام نہیں دیئے لیکن موجودہ حکومت کو سیاسی چپقلش کے بجائے ملک کے مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے تھا کیونکہ جیسے ہی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا بیان آیا تو میڈیانے محض ریٹنگ کیلئے اس معاملے کو خوب اچھالا اور  موضوع پر کئی پروگرام کئے گئے حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر بھی  بحث جاری ہے جس کے بعد یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی اور پاکستان کی بدنامی ہوئی۔

دنیا کی نمایاں ایئر لائنز میں سے ایک ایمرٹس ایئر لائن کو کھڑا کرنے میں سب سے زیادہ نمایاں کردار پی آئی اے کا تھا ، ایمرٹس نے پی آئی اے کے دو جہاز، عملے اور وسائل استعمال کرکے خود کو بنایا اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے پائلٹس ایمرٹس کے مہنگے ترین جہاز اڑا یا کرتے تھے لیکن ایک متنازعہ بیان کے بعد پی آئی اے پر یورپ، امریکا، برطانیہ حتیٰ کہ ایتھوپیا میں بھی پروازوں پر پابندی عائد کردی گئی اور دنیا کے کئی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کو کام سے روک دیا گیا اور صرف ایک بیان کی وجہ سے تمام پائلٹس کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔

وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی جانب سے پی آئی اے کے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے حوالے سے انکشاف کے بعد دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں کے تحفظ اور سروسز کے معیار کو جانچنے والے ادارے ایئرلائن ریٹنگ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی ریٹنگ کوکم کر کے ون اسٹار کر دیا ہے۔یورپی یونین کی جانب سے پروازوں پر پابندی کی وجہ سے پی آئی اے کا ایک اسٹار کم ہوا جبکہ ایئرلائن ریٹنگ نے 3اسٹار اورآئیاٹا کے حفاظتی آڈٹ اور ایک اسٹار آئی سی اے او کنٹری آڈٹ کی وجہ سے کم ہوا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی ایئر لائنز بیرون ممالک میں محصور اپنے شہریوں کو واپس لانے کیلئے خدمات انجام دے رہی ہیں اور دوسری طرف پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو پروازوں سے روک کر ملک کو نقصان پہنچایا گیا اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھی دورہ انگلینڈ کیلئے افغانستان کی ایئر لائن کا استعمال کیا ۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز پر پابندی کے بعد ملک کی بدنامی کے ساتھ ساتھ سمندر پار پاکستانیوں کو بھی بڑا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ عرصہ دراز سے بیرون ممالک خدمات انجام دینے والے ڈاکٹرز،انجینئرز، اکانومسٹ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینے والوں کی ڈگریوں پر بھی سوال اٹھاجارہے ہیں، دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ جس ملک کے جہاز اڑانے والے پائلٹس کے لائسنس جعلی ہوسکتے ہیں تو اس ملک کے ڈاکٹرز، انجینئرز، اکانومسٹ کی ڈگریاں بھی جعلی ہوسکتی ہیں۔

موجودہ حکومت سمندر پار پاکستانیوں کو بہت اہمیت دیتی ہے اور بعض حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی عمران خان کا ساتھ دیں تو وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتے لیکن حکومت کے ایک متنازعہ اقدام کی وجہ سے آج دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کو سخت مشکلات کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔

حکومت نے جو کیا اور اس کے بعد دنیا بھر سے جو ردعمل آیا اور پاکستان کو جونقصان اور بدنامی اور شرمندگی اٹھانا پڑی اس سب کے بعد ایک اور سامنے آئی کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستانی پائلٹس کے لائسنس درست قرار دیدیئے ہیں۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر ہوا بازی جن کی اپنی جعلی ڈگری کا معاملہ زیر التواء ہے اور ان کو معاملے کا فیصلہ ہونے تک کام کرنے کی اجازت ہے تو یہی فارمولا پائلٹس کے معاملے میں کیوں نہیں اپنایا گیا۔سول ایوی ایشن کی تصدیق کے بعد وفاقی وزیر غلام سرور خان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جواب دیں ۔

ہمارے ملک میں ایک روایت عام ہے کہ حکومتی ترجمان کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر بیانات جاری کردیتے ہیں اور میڈیا بھی بغیر تحقیق اور تصدیق کے ان بیانات کو محض ریٹنگ بڑھانے کیلئے مزید مسالہ لگاکر پیش کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی چیز کو اتنا زیادہ اچھالا جاتا ہے کہ جھوٹ بھی سچ لگنے لگ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا اس معاملے کو دوبارہ اجاگر کریگا اور کیا میڈیا پربیانات کے ذریعے پی آئی اے اور پائلٹس کی تذلیل کرنے والے معافی مانگیں گے یا اس معاملے پر بھی مٹی ڈال کر دفن کردیا جائیگا۔

Related Posts