پاکستان میں امریکی اڈے کے تباہ کن مضمرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بات بالکل سادہ سی ہے۔ 20 برس قبل امریکہ اپنے 44 اتحادیوں سمیت یہ کہہ کر افغانستان آیا کہ طالبان دہشت گرد ہیں، ہمارا ہدف حکومت تبدیل کرنا ہے۔ 20 سال بعد اس نے مار کھا کر انہی طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے اور وہ بھی یوں کہ مذاکرات میں بس دو ہی فریق تھے۔ ایک طالبان اور دوسرا امریکہ۔ کابل کا اشرف غنی تین میں نہ تیرہ میں۔ ان مذاکرات کی خاص بات یہ ہے کہ امریکہ اپنی تاریخ میں پہلی بار ‘دہشت گردوں’ سے مذاکرات پر مجبور ہوا۔ اور مجبور بھی اتنا کہ پاکستان کو دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے طالبان سے ہمارے مذاکرات نہ کرائے تو اچھا نہ ہوگا۔ ان مذاکرات میں امریکہ کا سب سے کلیدی مطالبہ یہ تھا کہ طالبان ضمانت دیں کہ وہ اپنی سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ضمانت دینا طالبان کے لئے کونسا مشکل تھا۔ وہ جب اقتدار میں تھے تو 1997ء میں کشمیری عسکریت پسند تنظیموں کے کیمپ افغانستان سے ختم کر دئیے تھے۔ پاکستان نے بہت منت سماجت کی کہ یہ تو آپ کے ‘جہادی بھائی’ ہیں۔انہیں نہ نکالیں، لیکن طالبان کا موقف تھا کہ بھارت سے اپنی جنگ اپنی سرزمین سے لڑیں۔ ہم اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

یوں کشمیری تنظیموں کے کیمپ افغانستان سے آزاد کشمیر اور مانسہرہ کے آس پاس منتقل ہوئے۔ میں تو منتقلی کے اس عمل کا چشم دیدگواہ بھی ہوں۔ ان دنوں حرکت الانصار کا ناظم اطلاعات و نشریات جو تھا۔ سو دوحہ مذاکرات میں بھی طالبان نے بلا کسی بحث و تمحیص کے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا۔ امریکہ کا دوسرا بڑا مطالبہ یہ تھا کہ اسے 5 اڈے افغانستان میں برقرار رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اس مطالبے کو طالبان کی جانب سے مکمل طور پر مسترد کردیا گیا۔ امریکہ 5 سے 3، اور 3 سے 1 اڈے تک آگیا مگر طالبان کسی صورت نہ مانے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے جو جینئس دوحہ میں امریکہ کی سہولت کاری کر رہے تھے وہ بھی طالبان کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ اڈے دے دیں، مگر طالبان پھر بھی نہ مانے۔ اب تازہ خبروں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے عسکری ارسطوؤں نے امریکہ کو اپنا فوجی اڈہ کرائے پر دینے کی تیاریاں شروع کردی ہیں، بلکہ شاید ملک ریاض بن کر اس کے لئے زیرو میٹر اڈہ تعمیر کرایا جا رہا ہے۔ اڈہ تاحال دیا نہیں ہے لیکن ہاں تو ضرور کردی گئی ہے۔ کیونکہ امریکی نائب وزیر دفاع کانگریس کو رپورٹ کرچکا۔ امریکی کانگریس میں غلط بیانی ایک سنگین جرم کا درجہ رکھتا ہے۔ اس سے نہ صرف جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے بلکہ کیریئر بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے۔ اسی لئے وہاں غلط بیانی کا کوئی تصور بھی نہیں کرتا۔

دوسری بات یہ کہ امریکی نتظامیہ کو ہر بات ہاؤس کو اس لئے بھی بتانی ضروری ہوتی ہے کہ داخلی و خارجی منصوبوں پر خرچ ہونے والا ہر ڈالر اسی ہاؤس سے منظور ہوتا ہے۔ امریکہ پر حکومت صدر کی ہوتی ہے مگر صدر کو ہر ڈالر کی منظوری ایوان سے لینی ہوتی ہے۔ پاکستان میں امریکی فوجی اڈہ بنا تو اس کے خرچے بھی اسی ہاؤس سے منظور کرائے جائیں گے۔ سو اسی لئے وہ ہاؤس کو پیشگی آگاہ رکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں وہ کون کونسے نئے خرچوں کا مطالبہ لے کر اس کے پاس آنے والے ہیں۔لہٰذا ان دو اسباب کے ہوتے نائب امریکی وزیر دفاع کی ایوان کو دی گئی اطلاع کسی طور غلط نہیں ہوسکتی۔ ہماری جانب کوئی ہے جس نے گرین سگنل دیا ہے۔ اگر وہ ہمارے جرنیل نہیں ہیں تو پھر معید یوسف نام کا وہ امریکی ایجنٹ ہے جسے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کے طور پر ہمارے حساس اداروں نے قبول کر رکھا ہے۔ ہمارے دفتر خارجہ کی تردید کی دو ٹکے کی بھی حیثیت نہیں۔ وہ مشرف دور میں بھی اس طرح کے معاملات میں متواتر جھوٹ بولتا رہا ہے۔

اگر یہ اڈہ دے دیا گیا تو اس کے انتہائی تباہ کن اثرات یوں مرتب ہوں گے کہ طالبان سے لی گئی وہ ضمانت ہوا میں تحلیل ہوجائے گی کہ وہ اپنی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ کیونکہ اس اڈے کا صاف صاف مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ نے جنگ بندی نہیں کی بلکہ طالبان کے حملوں سے بچنے کے لئے پڑوسی ملک میں پناہ لے کر اس کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس معاملے میں پاکستان اس کا سہولت کار ہے۔ چونکہ اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت پاکستان نے خود دی ہوگی لہٰذا ہماری اپنی حیثیت بھی اب طالبان کے دشمن کی ہوگی۔ یوں ہمارا یہ اقدام طالبان کو جواز مہیا کر دے گا کہ وہ نائن الیون کے بعد پہلی بار پاکستان میں بھی حملے شروع کریں۔ اگر امریکہ بگرام سے نصیر آباد آئے گا تو طالبان بھی اس کے پیچھے پیچھے نصیر آباد آئیں گے۔ اگر طالبان ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کا نہیں بلکہ ہمارا قصور ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ یہ عین وہ ایام ہیں جب دنیا میں کورونا کی وبا کے باوجود امریکہ مغربی ممالک، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کو ساتھ ملا کر ساؤتھ چائنا سی میں چین کو گھیرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے موقع پر اس اڈے کو چین اپنے خلاف ہی دیکھے گا۔ وہ اسے کسی طور بھی قبول نہیں کرے گا۔ اگر ساؤتھ چائنا سی کی صورتحال نہ بھی ہوتی تو چین کے سی پیک کے سر پر امریکی اڈہ رکھنے کی کیا منطق ہے ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات کے لئے ملک پر ہائبرڈ نظام مسلط کرنے والے امریکہ کو اڈہ دے کر اپنا ہائبرڈ نظام منظور کروانےکی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر یہ نہیں سوچ رہے کہ ان کا یہ اقدام ملک کے لئے کتنا تباہ کن ہوگا۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ قوم اس اقدام کو عمران خان کی حرکت سمجھ کر توپوں کا رخ اس طرف رکھے گی تو یہ ایک بڑی بھول ہے۔ قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان سویلین حکمران کسی کو ملک کو فوجی اڈہ دینا تو درکنار فوجی جیپ دینے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ خارجہ اور دفاعی امور کی اتھارٹی کوئی اور ہے۔

Related Posts