اسلام آباد ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کی بدعنوانی، جعلسازی سے کروڑوں کا فراڈ جاری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کی بدعنوانی، جعلسازی سے کروڑوں کا فراڈ جاری
اسلام آباد ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کی بدعنوانی، جعلسازی سے کروڑوں کا فراڈ جاری

اسلام آباد ماڈل ٹاؤن انتظامیہ نے بدعنوانی اور جعلسازی کے ذریعے کروڑوں کا فراڈ کیا جبکہ سیکڑوں پلاٹس غیر قانونی طور پر فروخت کردئیے گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کی حدود میں واقع اسلام آباد ماڈل ٹاؤن میں رہائشی و کمرشل پلاٹوں کی فروخت کی آڑ میں عام شہریوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ کروڑوں روپے کا فراڈ جاری ہے۔

شہرِ اقتدار کے علاقے موضع ملوٹ اور بیگوال میں واقع اسلام آباد ماڈل ٹاؤن ہاؤسنگ اسکیم ماڈل پراجیکٹ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کا پراکسی پراجیکٹ ہے جس کے ڈائریکٹر ملک طاہر اور نوید عماد ہیں۔

ماڈل ٹاؤن ہاؤسنگ سوسائٹی راستے سمیت دیگر اہم قانونی تقاضوں کے بغیر 423 کنال کا ایل او پی،  سی ڈی اے سے منظور کروا چکی ہے جب کہ سی ڈی اے کی جانب سے این او سی ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔

سی ڈی اے بائی لاز کے مطابق 100 فٹ چوڑے راستے کے بغیر ایل او پی منظور نہیں کیا جاسکتا جبکہ ہاؤسنگ پراجیکٹ کو ایل او پی جاری کرنے کے لیے گاؤں کا راستہ ظاہر کرکے سی ڈی اے ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد چوہان نے غیر قانونی طور پر سوسائٹی ایل او پی منظور کیا۔

ھاوسنگ اسکیم کے سیوریج اور پانی کی سہولیات میں ماحولیات سمیت دیگر رہائشی سہولیات کے قانونی تقاضوں کو بھی نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد پارک ویو سوسائٹی کے لیے مہنگے داموں زمین فروخت کرنا تھا لیکن پارک انتظامیہ نے مزید زمین خریدنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

پارک ویو سٹی کو زمینوں کی فروخت میں ناکامی کے بعد بعد اسلام آباد ماڈل ٹاؤن انتظامیہ نے سوشل میڈیا سمیت دیگر ذرائع سے اندرون اور بیرون ملک مارکیٹنگ کے ذریعے سیکڑوں پلاٹ فروخت کر دیے ہیں۔

دوسری جانب سی ڈی اے کے متعلقہ افسران نے اسلام آباد ماڈل ٹاؤن انتظامیہ کو پورا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ عوام الناس اور اوورسیز پاکستانیوں کو ایل او پی ظاہر کرکے سرمایہ کاری کے لیے راغب کر سکیں۔

ڈائریکٹر سی ڈی اے ارشد چوہان جو پہلے ہی مبینہ کرپٹ افسر کے طور پر پہچان رکھتے ہیں انہوں نے اسلام آباد ماڈل ٹاؤن انتظامیہ کے ساتھ مل کر پارک ویو سٹی انتظامیہ کے ساتھ زمینوں کے فروخت کے معاملات طے ہونے پر وسیع تر مفاد کی شرط رکھی تاکہ پراکسی پراجیکٹ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے۔

اس کا مقصد زیادہ حصہ وصول کرنا تھا، لیکن کورونا وائرس اور خراب ملکی معیشت کے باعث پارک ویو نے پراجیکٹ کو مزید وسعت دینے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جبکہ اس سے قبل اسلام آباد ماڈل ٹاؤن انتظامیہ  سیکڑوں کنال زمین پراجیکٹ کے لیے بے نامی پیسے سے خرید چکی ہے جس کے باعث پراجیکٹ مارکیٹ کرنا پڑا۔

پارک ویو کو زمینوں کی فروخت کی ناکامی کے بعد اسلام آباد ماڈل ٹاؤن انتظامیہ نے اندرونی اور بیرونی پراجیکٹ کی مارکیٹنگ کی جس کی مد میں کروڑوں روپے اکٹھے کیے جا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ماڈل ٹاؤن کے مالکان ملک طاہر کے آر ایل میں معمولی ملازم تھے اور کے آر ایل کوآپریٹو سوسائٹی کی انتظامی کمیٹی میں بھی بغیر معاوضہ کام کرتے رہے جب کہ نوید عماد بطور ٹیکس کنسلٹنٹ کام کرتے رہے ہیں۔

کے آر ایل کے معمولی ملازم نے اپنے پارٹنر کے ساتھ مل کر سیکڑوں کنال زمین کے معاہدے  اپنے فرنٹ مین اور مختلف قریبی رشتہ داروں کے نام پر کیے جبکہ ملک طاہر اپنے پارٹنرز کے ساتھ مل کر ملتان میں ہاؤسنگ پراجیکٹ کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔

سیکڑوں رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی غیر قانونی فروخت میں حاصل شدہ کروڑوں کی رقم ملک طاہر نوید عماد اور کمپنی کے بینک اکاؤنٹس میں وصول کی گئی جبکہ عوام کا حکامِ بالا سے مطالبہ ہے کہ فراڈ کے ذریعے حاصل کی گئی رقم واپس دلائی جائے۔ 

یہ بھی پڑھیں: کراچی سے ایک اور ڈبل شاہ گرفتار، 9 کروڑ کی جعلسازی کا انکشاف

Related Posts