کورونا وائرس: ہم کتنے تیار ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کورونا وائرس سے عالمی سطح پراب تک 4ہزار سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور 119 ممالک میں ایک لاکھ سے زائد افراد اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور اس وباء نے پوری دنیا کی معیشتوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

کورونا وائرس کے خدشات بڑھتے ہی عالمی منڈیوں میں کمی آچکی ہے جبکہ سعودی عرب اور روس تیل کی قیمتوں پر جنگ میں مصروف ہیں۔ یورپ اور امریکا میں اسٹاک مارکیٹیں 2008 کے شدید مالی بحران سے دوچار ہوچکی ہیں اورگزشہ چند روز میں عالمی اسٹاک مارکیٹس سے تقریبا  9 ٹریلین ڈالر کا صفایا ہوگیا ہے اور یہ وباء عالمی معیشت میں کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اگر مہلک وائرس کی رفتار سے جاری رہی تو دنیا کی ابھرتی ہوئی مارکیٹیں مزید معاشی بحران برداشت نہیں کرپائینگی۔

کورونا کی وباء پاکستان میں پھیل گئی تو پاکستان اپنی کمزور معیشت کے باعث مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا اور جی ڈی پی کی ایک اعشاریہ 9 فیصد سے کم ہونے خدشات بڑھ جائینگے ،غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد جو 2018 کے اعدادوشمار کے مطابق 31.3 فیصد ہیں ان کے پاس حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ معاشی طور پر پسماندہ آبادی کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کے لئے یہ ایک نقطہ آغاز بن جائے گا جس کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب ہوسکتی ہے۔

محققین نے یہ تجویز کرنا شروع کیا ہے کہ اگر ناول کورونا وائرس اپنی موجودہ رفتارکے ساتھ آگے بڑھتا رہا تویہ ہمارے قومی معاملات میں تبدیلی لاسکتا ہے لیکن دنیا بھر میں معاملات میں تیزی آرہی ہے تاہم اس وائرس کی روک تھام کیلئے علاج یا ویکسین کی تیاری فوری نظر نہیں آرہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے مسئلے کے حل تک پہنچنے سے پہلے کافی نقصان ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں  سندھ میں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیس سامنے آنے کے باوجود تاحال سندھ حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جاسکے، کراچی کے بڑے سرکاری اسپتالوں جناح اور سول اسپتال میں بھی کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے اقدامات کا فقدان نظرآرہاہے جبکہ ان دو بڑے اسپتالوں کے علاوہ کسی سرکاری اسپتال میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹرز کو بھی اس مہلک وباء سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی تحریری ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ محکمہ صحت کے فوکل پوائنٹس کے بارے میں اطلاع دینے کے نظام میں  پیچیدگی کی وجہ سے ڈاکٹر مشتبہ مریضوں کو زبانی طور پر کراچی کے دو اہم اسپتالوں جناح اور سول میں رپورٹ کرنے کی ترجیح دیتے ہیں، ڈاکٹرز کو واضح ہدایات نہ ملنے کی وجہ سے معاملات بے قابوہوسکتے ہیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کورونا وائرس کا پھیلنا بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے،اس تحقیق کے حوالے سے بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ مہلک وائرس 26 ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت میں زندہ نہیں رہ سکتا۔

پاکستان میں اعداد وشمار کا نظام انتہائی ناقص ہے جس کی وجہ سے کورونا وائرس جیسی آفات کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہےاور ملک میں اس مہلک وباء سے بچائو کے حوالے سے مناسب احتیاطی تدابیر سامنے آئی ہیں نہ ہی معلومات کا کوئی نظام وضع کیا جاسکا ہے ۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں تمام اسٹیک ہولڈرز اور صحت کے ماہرین کو اس وباء سے نمٹنے کیلئے تیاری کرنا ہوگی اور حکومت کو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی کٹس کی فراہمی کیلئے ڈونر ممالک خاص طور پر چین سے مدد لی جائے اور جن لوگوں کے اس وائرس میں مبتلا ہونے کے خدشات ہیں ان کو مکمل طور پر چیک کیا جائے اور ایک مربوط نظام قائم کیا جائے کیونکہ اگر کورونا وائرس کی وباء پاکستان میں پھیل گئی تو بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔

Related Posts