پاکستان جیسے جمہوری ملک میں سیاسی نظام اکثر و بیشتر عوام کے سامنے واقعات کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جس کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
جمہوری نظام کی یہ دھوکہ دہی سیاست دانوں کو آسانی سے اپنے بدعنوان طریقوں کو چھپانے کے قابل بناتی ہے، جس سے شہریوں کے اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے جن کی خدمت کیلئے انہیں منتخب کرکے ایوانوں میں بٹھایا جاتا ہے۔
ججوں کی آڈیو لیکس کے معاملے کی تحقیقات کیلئے وفاقی حکومت نے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا ہے۔ اس کمیشن میں اسلام آباد اور بلوچستان ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ شامل ہیں جو کمیشن کی سربراہی کر رہے ہیں اور بنیادی طور پر حکومت کا یہ اقدام شفافیت اور احتساب کی طرف ایک قدم معلوم ہوتا ہے۔
تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے اس جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عمران خان کا مؤقف ہے کہ چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل پہلے سے ہی ججوں کے تمام تر معاملات کی تحقیقات کے لیے موجود ہے۔ اگر اس مؤقف کا جائزہ لیجئے تو ایک اور کمیشن کے قیام کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی اور اس کے قیام کے پیچھے حقیقی عزائم کے بارے میں بعض سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔
ایک اہم پہلو جو کمیشن میں شامل ججوں کی غیر جانبداری پر تشویش کا باعث بنتا ہے وہ ان کا مبینہ جانبداری پر مبنی رویہ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دونوں کو عوام کی کثیر تعداد غیر جانبدار جج نہیں سمجھتی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف ان کی کھلی مخالفت اور مختلف مقدمات کی سماعتوں کے دوران ان کے ریمارکس ان کے ایک خاص سیاسی مؤقف کی طرف جھکاؤ کا ثبوت ہیں۔ غیر جانبداری کا یہ فقدان کمیشن کی کارروائی پر شکوک پیدا کرتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی حکومت ججز کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے آڈیو لیکس کمیشن بنا چکی۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس کمیشن کے لیے ججز کے انتخاب پر غور کیا جائے تو 2 سوالات جنم لیتے ہیں۔ اوّل یہ کہ کیا حکومت کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے، جو پہلے ہی عوام کی نظروں میں ہے؟ اور دوم یہ کہ کیا کمیشن کی تشکیل کا مقصد آڈیو لیکس کے حقائق بے نقاب کرنا یا پھر ججز پر دباؤ ڈالنا ہے؟
ضروری ہے کہ حکومت عوام کے ساتھ سیاست کی بجائے اپنے شہریوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرے۔ مختلف کمیشنوں کی تشکیل اور نام نہاد تحقیقات پر وقت ضائع کرنے کو اہم مسائل سے توجہ ہٹانے اور احتساب سے بچنے کے لیے ایک حربے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ حکومت کو شفاف طرزِ حکمرانی کو ترجیح دینی چاہیے، اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انصاف کی بالادستی ہو اور ملک میں رائج جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔