عالمی غذائی بحران سے جنگ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) امیر ممالک کی توجہ دُنیا کے 34 کروڑ 50 لاکھ افراد پر مرکوز کرنے کیلئے متحرک ہے جنہیں 82 ممالک میں خوراک کے شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

عالمی خوراک پروگرام کا ہدف 2022 میں 15 کروڑ 20 لاکھ افراد کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے جس کیلئے 22 ارب امریکی ڈالرز سے زائد امداد کی ضرورت ہے۔ 15 کروڑ 20 لاکھ  بھوکے انسانوں کو کھانا کھلانا ایک اہم ہدف ہوگا۔

ڈبلیو ایف پی کی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دنیا کو غذائی قلت اور بھوک کے ایک ایسے عالمی بحران کا سامنا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ صرف دو سالوں میں، وبائی مرض سے پہلے کے 53 ممالک میں شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار یا خطرے میں پڑنے والے افراد کی تعداد13 کروڑ 50 لاکھ سے بڑھ کر 34 کروڑ 50 لاکھ تک جا پہنچی ہے جو 82 ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

کورونا کے ساتھ ساتھ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث اور یوکرین میں جنگ سے خوراک، ایندھن اور کھادوں پر ہونے والے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ کتنے ہی لوگ بھوک کے باعث موت کے قریب جا پہنچے۔ دنیا تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگوں کی خوراک کی فوری ضروریات کو پورا کریں۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے پروگرامز کی حمایت کی بھی ضرورت ہے جو طویل مدتی اعتبار سے آسانیاں پیدا کرسکیں، بصورتِ دیگر تباہ کن پیمانے پر بھوک اور افلاس اقوامِ عالم کا مقدر بن سکتی ہے۔

ایک طرف تو اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے دیگر ادارے لاکھوں افراد کو بھوک سے موت کے قریب جانے سے روکنے کیلئے ہنگامی کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ  قومی خوراک کے نظام اور متعلقہ سپلائی چین کی تعمیر اور استحکام میں بھی مدد دی جارہی ہے۔اس دوران ڈبلیو ایف پی کا مقصد 2022 میں خوراک سے محروم 15 کروڑ 20 لاکھ لوگوں کی مدد کرنا ہے جو 2021 میں 12  کروڑ 80 لاکھ کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔

دوسری طرف امیر ممالک اور طاقتور گروہ مسلح تنازعات کو ہوا دینے میں مصروف ہیں جس میں روس۔یوکرین، چین-تائیوان، چین-بھارت اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک  شامل ہیں۔ ماحول دوست صنعتی انقلاب نے پوری فضا کو تبدیل کر دیا ہے جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ اور تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں آتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہی وسیع پیمانے پر جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگ، ہیٹ ویوز، سردی کی لہریں، موسلا دھار اور بارشیں اور گرج چمک، سیلاب اور عالمی وبائی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ مسلح تنازعات اور موسمی اثرات نے خوراک کی پیداوار اور سپلائی چین کو متاثر کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والے اداروں کی مقامی خوراک کی خریداری کو فروغ دینے کی کوشش اور انسانی رسائی اور برآمدی چھوٹ کے لیے مذاکرات، تنازعات اور آب و ہوا کے اثرات  سے بھرپور طریقے سے نمٹنے کے لیے اہم ہیں۔ یہ تمام کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گی جب تک خوراک کے عالمی بحران کی حقیقی وجوہات کو حل نہیں کیا جاتا۔

 روس یوکرین جنگ نے جسے مغربی ممالک یوکرین کو وسیع فوجی امداد فراہم کر کے ہوا دے رہے ہیں، دنیا کو کل غذائی اجناس کے 26 فیصد سے محروم کر دیا۔ صرف 6 ماہ میں یوکرین کیلئے امریکی فوجی امداد تقریباً 8 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ رقم جون 2022 کے آخر تک ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کیلئے 4.8 ارب ڈالر کی تصدیق شدہ شراکت سے تقریباً دوگنا ہے۔ یہ  ڈبلیو ایف پی کے آپریشنز کیلئے اب تک کے سب سے زیادہ مطلوبہ فنڈز کا صرف 22 فیصد بنتی ہے۔

گزشتہ ماہ، روس نے یوکرین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے تاکہ یوکرین کے بحیرۂ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے غذائی اجناس برآمد کرنے کی اجازت دی جاسکے جو کہ عالمی غذائی بحران کے خدشے کے پیش نظر کیا گیا۔ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کی سفارت کاری کا نتیجہ تھا جس کی ترکی نے حمایت کی تھی۔ معاہدے پر دستخط ترکی کے شہر استنبول میں ہوئے، جس  سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر دونوں متحارب ممالک کے درمیان مناسب طریقے سے ثالثی کی جائے تو اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ اور معاہدے کے اچھے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، جسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان حالات کو معمول پر لانے میں مدد ملے گی، تاہم خوراک کے عالمی بحران کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں جو امریکہ اور یوکرین دونوں کیلئے اہم ہے۔ 

روس پر پابندیاں مغرب سمیت کئی ممالک کیلئے بے سود ثابت ہو رہی ہیں۔ خوراک اور توانائی کے بحران نے یورپی یونین کے سرکردہ ممالک میں بھی بدحالی پیدا کی جبکہ افریقی ممالک روسی غذائی اجناس کے منتظر ہیں۔ مغرب کو روس کیلئے اپنی سفارت کاری پر نظر ثانی کرنی ہوگی جس نے بہت سے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے ہیں۔یوکرینی صدر زیلنسکی کو اپنے تخیل سے باہر آکر حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ حقیقت ہمیشہ خواہشات اور تخیلات سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اناج سے لدے بہت سے بحری جہاز بحران کے گہرے ہونے سے پہلے بندرگاہوں سے راستہ ملنے کیلئے ان کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔

امریکی اور برطانوی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ یوکرینی غذائی اجناس کا بحران حل نہیں ہو سکے گا۔ انہیں اناج اور توانائی کی بلا تعطل عالمی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے روس پر سے پابندیاں ہٹانے کی ضرورت ہے۔ خوراک کی لڑائی میں یورپی یونین اور امریکہ نے بحران کی وجوہات کے بارے میں اس صورتحال سے بچنے کیلئے ایک متبادل راستہ منتخب کیا ہے جس کے بارے میں روس نے چند سال پہلے خبردار کیا تھا۔ امیر ممالک کو غریب ترین ممالک میں خوراک کے بحران کو حل کرنے کے لیے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

ایک روسی سفارت کار نے حقائق کو توڑ مروڑ کر روس پر عالمی خوراک کے بحران کو ہوا دینے کا الزام لگاتے ہوئے امریکہ کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا فرمانا تھا کہ مغرب کی میکرو اکنامک، توانائی اور آب و ہوا کی پالیسیوں میں نظامی غلطیوں نے موجودہ معاشی صورتحال کو مزید خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی، روس زرعی مصنوعات، کھادوں اور توانائی کے وسائل کی فراہمی کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرتا رہے گا۔ ماہرین نے عالمی معیشت کے لیے روس مخالف پابندیوں سے ہونے والی تباہی کا بھی جائزہ لیا ہے تاہم امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات کے لیے بہت سے ممالک کو  قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔

روسی حکومت بے بنیاد روسو فوبیا پر مبنی الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی ہے  لیکن عالمی منڈیوں میں خوف و ہراس پھیلانے، توانائی کے وسائل اور زرعی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور یوکرین کے ذخائر کی جان بوجھ کر بڑے پیمانے پر برآمدات کے لیے خود یورپی یونین کی ذمہ داری کی طرف بھی براہ راست اشارہ کرتا ہے۔ 

روس سے توانائی کی سپلائی پر امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیاں عالمی منڈیوں کی صورتحال کو غیر مستحکم کرتی ہیں۔ واشنگٹن اور اس کے اتحادی ان پابندیوں کے ذریعے توانائی کے شعبے پر سیاست کر رہے ہیں۔ توانائی کے صارفین اور سپلائی کرنے والوں کے باہمی انحصار کو سیاسی دباؤ کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ ان کی اپنی معیشتوں اور اپنے شہریوں کی سماجی و اقتصادی بہبود کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

یوکرینی غذائی اجناس دنیا کے غذائی بحران کو حل نہیں کر سکتیں۔ دیگر ممالک کو مزید غذائی اجناس فراہم کرنے کیلئے آگے آنا ہوگا۔ روس کو بحیرہ ازوف کے محفوظ پانیوں، ڈینیوب کے ذریعے رومانیہ یا ہنگری اور پولینڈ کے راستے ریل کے ذریعے اناج برآمد کرنے کے لیے بھی شامل کرنا ہوگا۔ ایک اور آسان ترین راستہ بیلاروس سے بالٹک تک اور آگے بحیرہ بالٹک کے ساتھ ہے۔ لیکن مغرب روس پر عائد پابندیاں اٹھانے سے انکاری ہے جس سے دنیا بھر میں غذائی قلت کا خدشہ ہے۔ جن ممالک نے روسی اناج کی خریداری نہ کرنے کے امریکی خط کا ساتھ دیا، وہ اپنے عوام کے بہترین مفاد میں آزادانہ طور پر دوبارہ غور کریں گے۔ روسی غذائی اناج لاطینی ممالک کے مقابلے میں انتہائی مسابقتی قیمت پر بہتر معیار کے ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لیے روس پر عائد پابندیوں میں نرمی کریں گے۔

Related Posts