ضمنی انتخابات: کون کہاں جیت رہا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ضمنی انتخابات: کون کہاں جیت رہا ہے؟
ضمنی انتخابات: کون کہاں جیت رہا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ضمنی انتخابات کا آخری مرحلہ چل رہا ہے جس میں الیکشن سے ایک دن قبل مختلف جگہوں پر چھوٹے موٹے دھڑے (پچاس سو سے دو تین سو ووٹ تک والے) اپنی آخری پوزیشن سیٹل کرہے ہوتے ہیں، اس میں خرید وفروخت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے اور کوئی مستقبل کا وعدہ، ترغیب وغیرہ بھی۔ یہ مختلف بستیوں، برادریوں، کمیونیٹیز کے ووٹ ہوتے ہیں، رات تک یہ بھی طے پا جائیں گے۔

الیکشن بڑی حد تک واضح ہوچکا ہے، بادی النظر یعنی اس وقت جو نظر آرہا ہے ، وہ اپنی معلومات اور تجزیے کی روشنی میں عرض کررہا ہوں۔

لاہور

لاہور کے چار صوبائی حلقوں میں الیکشن ہورہا ہے۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ پی ٹی آئی دو حلقوں میں بہت مضبوط ہے جبکہ دو میں مقابلہ ہے، ان میں سے ایک پر سخت مقابلہ ہے۔

پی پی 170 میں پی ٹی آئی سب سے مضبوط نظر آرہی ہے، یہ ٹاﺅن شپ کا حلقہ ہے، جہاں پی سی ایس آئی آر، پنجاب سوسائٹی وغیرہ جیسے مڈل کلاس سوسائٹیز ہیں۔ یہاں ن لیگی امیدوار چودھری امین زور لگا رہے ہیں، موصوف عمران خان کے سابق دوست اور اب وزیراعظم شہباز شریف کے مشیرعون چودھری کے بھائی ہیں مگر بطور ایم پی اے حلقے کے لئے انہوں نے کچھ نہیں کیا اور کبھی نظر نہیں آئے۔ یہ سب اب انہیں بھاری پڑرہا ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کے ظہیر کھوکھر کو واضح برتری ہے، مقامی سیاسی کارکنوں کا خیال ہے کہ دس ہزار ووٹوں کا فرق ہوگا۔

پی پی 167 میں ن لیگ کی حالت پتلی ہے، نذیر چوہان یہاں سے ان کے امیدوار ہیں۔ یہاں پی ٹی آئی کے امیدوار شبیر گجر نے بہت محنت کی، ڈور ٹو ڈور کمپین کی اور دن رات ایک کر رکھے ہیں۔ یہ علاقہ وفاقی کالونی، جوہرٹاﺅن، فیصل ٹاﺅن کے کچھ بلاکس پر مشتمل ہے، منہاج القرآن کا حلقہ بھی ادھر ہی ہے، ان کے تین چار ہزار ووٹ ہیں اور وہ پی ٹی آئی کے حق میں جائیں گے۔ شہری مڈل کلاس جن میں ورکنگ کلاس لوگ ہیں، وہاں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک مضبوط ہے۔ اس حلقے میں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے، اگرچہ ن لیگ پچھلے چند دنوں سے یہاں زور لگا رہی ہے، ایاز صادق نے بھی ادھر ڈیرے ڈالے ہیں اور پوری کوشش ہے کہ میدان مارا جائے۔ ن لیگ کو یہ سیٹ جیتنے کے لئے اپنے تمام ووٹروں کو باہر نکالنا ہوگا، یہ آسان سیٹ نہیں۔

پی پی 168،یہاں پر ن لیگ کے امیدوار اسد کھوکھر کو برتری حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ اسد کھوکھر کی پوزیشن بظاہر اچھی ہے، مگر یہاں وہ اپ سیٹ کریں گے۔ اس کا اندازہ کل ہی ہوپائے گا، بہرحال اس وقت ن لیگ یہاں بہتر پوزیشن میں ہے ۔

پی پی 158یہ لاہور کے روایتی حلقوں جیسا ہے، گڑھی شاہو اور کچھ ملحقہ علاقے۔ یہاں سے عبدالعلیم خان باون ہزار ووٹ لے کر جیتے تھے جبکہ تب ن لیگ کا امیدوار رانا احسن شرافت نے پینتالیس ہزارووٹ لئے۔

اب علیم خان نہیں لڑ رہے ، ٹکٹ رانا احسن شرافت کو ملا ہے ، علیم خان کی انہیں سپورٹ حاصل ہے، بظاہر تو یہ یک طرفہ مقابلہ ہونا چاہیے، مگر عملی طور پر ایسا ہوا نہیں۔ یہاں علیم خان کا خاصا کام ہے، وہ کئی ہزار گھرانوں کو برسوں سے ماہانہ راشن وغیرہ بھی دیتے ہیں۔ یہاں پی ٹی آئی کے امیدوار میاں اکرم عثمان ہیں، ان کے والد جماعت اسلامی کے سابق ایم این اے رہے، یہ تحریک انصاف کے ممتاز رہنما محمودالرشید کے داماد ہیں۔ میاں اکرم عثمان کی پوزیشن اچھی ہے اور ن لیگ کو ایڑھی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے۔ سلمان رفیق اور ایاز صادق کو ان دو حلقوں کےلئے خاص طور سے مستعفی کرایا گیا۔ اس وقت یہاں خاصا سخت مقابلہ ہے اور پی ٹی آئی یہ سیٹ جیت سکتی ہے، تاہم اگر ن لیگ اپنے بجھے بجھے سپورٹروں کو باہر نکالنے میں کامیاب رہی تو یہ ان کی سیٹ ہوگی اور تب معرکہ لاہور دو دو سے برابر رہے گا۔ تاہم اس حلقے میں دو تین اگر مگر ہیں۔

جھنگ، لودھراں، مظفر گڑھ

ان تینوں اضلاع میں دو دو صوبائی حلقوں کے الیکشن ہو رہے ہیں۔ جھنگ میں پی پی 125اور پی پی 127۔پی پی ایک سو پچیس میں ن لیگی امیدوار فیصل حیات جبوانہ ہیں،ان کامقابلہ پی ٹی آئی کے اعظم چیلہ کر رہے ہیں۔ یہاں پر ن لیگی امیدوار کی پوزیشن نسبتاً مضبوط ہے۔ یہاں پر آزاد امیدوار افتخار بلوچ کو لبیک کی حمایت حاصل ہے، پچھلے الیکشن میں ان کی بیٹی نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ساٹھ ہزار ووٹ لئے تھے، افتخار بلوچ کا اپنا ذاتی ووٹ ہے اور لبیک کا بارہ چودہ ہزار ووٹ مل گیا تو وہ بھی اچھے امیدوار بن چکے ہیں، کوئی اپ سیٹ بھی کر سکتے ہیں،۔بظاہر یہ سیٹ ویسے ن لیگ کی لگ رہی ۔

پی پی ایک سو ستائیس جھنگ میں پی ٹی آئی کے امیدوار مہر نواز بھروانہ کی پوزیشن بہتر ہے، انہیں پی ٹی آئی کے ایم این ایز کی حمایت حاصل ہے جو دربار سلطان باہوؒکے سجادہ نشینوں سے ہیں، سیال شریف کی گدی کا بھی یہاں اچھا خاصا اثرورسوخ ہے اور قاسم سیالوی بھرپور طریقے سے نواز بھروانہ کی حمایت کر رہے ہیں۔ ن لیگ کے امیدوار اسلم بھروانہ ہیں،یہ بھی اچھے تگڑے امیدوار ہیں،مقابلہ ہوگا ، تاہم تحریک انصاف کے امیدوار کو کسی قدر برتری ہے۔

لودھراں میں دلچسپ صورتحال ہے۔ وہاں پی پی 224 اور پی پی 228 میں الیکشن ہے۔پی پی 224 میں پی ٹی آئی کے امیدوار عامر اقبال شاہ کی پوزیشن چند دن پہلے تک بہت مضبوط تھی اور یہ یک طرفہ مقابلہ لگ رہا تھا، تاہم اب ن لیگ کی قیادت نے شہید کانجو گروپ کو ن لیگی امیدوار کی حمایت پر رضامند کر لیا اور اب یہاں مقابلہ کی کیفیت ہے۔ دراصل یہاں پر ن لیگی مقامی رہنما ن لیگ کے امیدوار زوار وڑائچ کی اندرون خانہ مخالفت کر رہے تھے۔ ویسے پی ٹی آئی کے امیدوار کو اب بھی معمولی برتری حاصل ہے۔ یہ سیٹ تحریک انصاف نکال سکتی ہے۔

لودھراں کے دوسرے حلقہ پی پی 228میں پوزیشن یکسر مختلف ہے ، یہاں پر پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر ہے اور اصل مقابلہ ن لیگ امیدوارنذیر بلوچ اور آزاد امیدوار پیر رفیع الدین شاہ میں ہے، تحریک انصاف کا امیدوار عزت جاوید خان کمزور ۔ پیر رفیع الدین شاہ کو مقامی دھڑے سپورٹ کر رہے ہیں، تاہم وہ اگر جیت گئے تو امکان یہی ہے کہ ن لیگ میں جائیں گے۔

مظفرگڑھ کے دو صوبائی حلقوں علی پور اور جتوئی میں الیکشن ہو رہے ہیں۔یہ دیہی حلقے ہیں اور یہاں پر برادری ، دھڑے اہم ہیں۔ پی پی 272سے ن لیگ کے امیدوار زہرہ باسط سلطان ہیں جو منحرف انصافین رکن قومی اسمبلی باسط سلطان کی اہلیہ ہیں، ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے معظم جتوئی سے ہے، جبکہ باسط سلطان کا بھائی ہارون سلطان بخاری بھی آزاد کھڑا ہے۔ زہرہ باسط سلطان کی پوزیشن مضبوط ہے، مقامی دھڑے ان کے خاوند باسط سلطان بخاری کے ساتھ ہیں ۔ معظم جتوئی کی حمایت جتوئی گروپ اور پیپلزپارٹی کے عبدالقیوم جتوئی بھی کر رہے ہیں، مگر جتوئی گروپ پچھلے چند برسوں میں کمزور ہوا ہے۔ ن لیگ یہ سیٹ نکال سکتی ہے۔

ساتھ والے حلقہ 273علی پورمیں مقابلہ ہے۔ سبطین رضا بخاری ن لیگی امیدوار ہیں جبکہ ان کا مقابلہ یاسر خان جتوئی سے ہے۔ یہاں پر لوکل گروپنگ کا تحریک انصاف کو کچھ فائدہ پہنچا ہے، گوپانگ گروپ کی تقسیم سے ن لیگ کو نقصان ہے جبکہ عمران خان کے بڑے جلسہ سے بھی تحریک انصاف کے کارکن چارج ہوئے ہیں، مورال ہائی ہوا ہے۔ مقابلہ البتہ سخت ہے، کلوز جائے گا۔

پنڈی، شیخوپورہ، فیصل آباد، ساہی وال

کہوٹہ کی اس سیٹ پی پی 7پر مقابلہ ہے۔ یہ ن لیگ کا گڑھ ہے، مگر اس بار راجہ برادری منقسم ہے، راجہ ظفر الحق ناراض ہے کہ ان کے بیٹے کی جگہ منحرف کو ٹکٹ دیا گیا، تاہم انہیں راضی کرنے کی خاصی کوشش کی گئی۔تحریک انصاف کے امیدوار کرنل شبیر اعوان ہیں۔ لوکل باڈیز پالیٹکس پر گہری نظر رکھنے والے صحافی تجزیہ کار احمد اعجاز کے خیال میں پی ٹی آئی کو نقصا ن یہ ہوگا کہ کہوٹہ مری کے بہت سے لوگ پنڈی میں مقیم ہیں، ان کےلئے صرف ووٹ ڈالنے کے لئے واپس جاناآسان نہیں۔ یہاں ن لیگ کو سبقت ہے۔

شیخوپورہ کے حلقہ پی پی 140میں بھی ن لیگ کو برتری ہے، تحریک انصاف کا امیدوار ویسے اچھا ہے، وکلا برادری میں اچھی سپورٹ ہے، یہاں لبیک کا امیدوار بھی مضبوط ہے اور اچھے ووٹ لے سکتا ہے۔

فیصل آباد پی پی 97میں تحریک انصاف کے امیدوار علی افضل ساہی کی پوزیشن چند دن پہلے تک بہت مضبوط تھی، وہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے داماد ہیں، ن لیگی قیادت نے اس حلقے میں جلسہ بھی نہیں کیا، مقامی ن لیگی قیادت بھی امیدوار سے ناراض تھی، مگر اب حمزہ شہباز کی ذاتی کوشش سے معاملات بہتر ہوئے ہیں اور اس وقت مقابلہ کی پوزیشن ہے، تحریک انصاف کو البتہ کسی قدر برتری ہے۔

ساہی وال کے حلقہ پی پی 202میں ن لیگ کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے، ان کے امیدوار نعمان لنگڑیا ل کو مقامی دھڑے اور سابق ارکان اسمبلی سپورٹ کر رہے ہیں، تحریک انصاف کا امیدوار قدرے کمزور ہے، میجر ر غلام سرور صاحب نے پہلے جماعت اسلامی سے الیکشن لڑا تھا، اس بار تحریک انصاف نے انہیں ٹکٹ دیا۔ ن لیگ یہ سیٹ جیت سکتی ہے۔

خوشاب، بھکر ، لیہ، بہاولنگر

خوشاب کے حلقہ پی پی 83میں تحریک انصاف کمزور پوزیشن میں ہے، بظاہر ان کا امیدوار تیسرے نمبر پر ہے، یہاں مقابلہ ن لیگی امیدوار امیر حیدر سنگھا اور آزاد امیدوار آصف بھا میں ہے۔ لودھراں کی طرح خوشاب میں بھی آزاد امیدوار کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں، تاہم اگر یہ جیت گئے تو ن لیگ ہی میں جائیں گے۔

بھکر میں سعید اکبر نوانی جو سات بار ایم پی اے بن چکے ہیں، ان کے مقابلے میں عمران خان کے چچا زاد بھائی عرفان اللہ نیازی ہیں۔سعید نوانی کے جیتنے کے امکانا ت واضح ہیں، یہ روایتی حلقہ ہے اور یہاں نوانی برادری کااثرورسوخ گہرا ہے۔

لیہ کے علاقہ چوک اعظم ، چوبارہ میں حلقہ 282 پر الیکشن ہے۔ یہاں تحریک انصاف کے امیدوار سردار قیصر مگسی کی پوزیشن بہتر ہے، ن لیگ کے طاہر رندھاوا کی حمایت کے لئے وفاقی اور صوبائی وزرا وہاں خاموشی سے سرگرم رہے، مریم نواز شریف نے بھی جلسہ کیا، اس سے مقابلہ کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ یہاں آزاد امیدوار ریاض گرواں بھی مناسب امیدوار ہیں اور اچھا مقابلہ ہوگا، تحریک انصاف کو قدرے برتری حاصل ہے۔

بہاولنگر کے علاقہ منچن آباد حلقہ 237میں ن لیگ کے فداحسین کالوکا کی پوزیشن بہت مضبوط ہے، کالوکا وٹو برادری کی سب کاسٹ ہے، فدا کالوکا پہلے بھی تین بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں، ان کے بھتیجے رکن قومی اسمبلی ہیں، یہاں انہیں واضح برتری حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار سید آفتاب رضا کا معروف سید خاندان سے تعلق ہے، ان کے چچا اصغر شاہ سابق رکن اسمبلی ہیں، مگر اس وقت تحریک انصاف بہت کمزور ہے، عمران خان نے اس حلقہ میں جلسہ کرنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

ملتان، ڈی جی خان کے سخت مقابلے

ان ضمنی انتخابات کا سب سے بڑا اور اہم مقابلہ ملتان کے حلقہ پی پی 217میں لڑا جا رہا ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کا مقابلہ ن لیگی امیدوار سلمان نعیم سے ہے۔ شاہ محمود قریشی عام انتخابات میں اس سیٹ پر سلمان نعیم سے ہار چکے ہیں، اس کا زخم اتنا گہرا تھا کہ انہوں نے ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے اپنے بیٹے کو کھڑا کر کے اپنی سیاسی ساکھ کو داﺅ پر لگا دیا۔ یہاں سخت مقابلہ ہے اور کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ن لیگ نے بھی ادھر محنت کی ہے، پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے بھی ایڑھی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ شاہ محمود قریشی کو ہزیمت اٹھانا پڑے۔ دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے، اس وقت سلمان قریشی کی پوزیشن اچھی ہے،کلوز مقابلہ ہوسکتا ہے۔

ڈی جی خان میں سردار ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے سیف کھوسہ اور امجد فاروق کھوسہ کے صاحبزادے عبدالقادر کھوسہ میں مقابلہ ہے۔ سیف کھوسہ تحریک انصاف سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسی حلقہ کے لئے صوبائی وزیر اویس لغاری کو مستعفی کرایا گیا، حلقہ کے چند یونین کونسلوں میں ان کا اثرورسوخ ہے، ن لیگ کے امیدوار کی پوزیشن اچھی ہے مگر مقابلہ ہوگا۔

اس وقت کی پوزیشن بظاہر یہ ہے کہ دو حلقوں میں آزاد امیدوار جیت سکتے ہیں، پی ٹی آئی آٹھ سیٹیں جبکہ ن لیگ بھی سات سے آٹھ سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ جبکہ چار پانچ حلقے خاصے کلوز ہیں، اُن میں الیکشن ڈے مینجمنٹ فرق ڈالے گی۔

یہاں پر دو اگر ہیں

پی ٹی آئی کی جیت کا دارومدار اچھے ٹرن آﺅٹ پر ہے، اگر

وہ اپنے سپورٹرز کو نکالنے میں کامیاب رہے اور الیکشن میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہ ہوئی تو بارہ تیرہ سیٹیں بھی نکال سکتے ہیں، ورنہ وہ سات سے نو نشستیں تک ہی محدود رہے گی۔

ن لیگ نے محنت بھی کی، انہیں مضبوط الیکٹ ایبل امیدوار بھی ملے، انتظامیہ کی بھرپور مدد رہی، اس کے باوجود ن لیگی ووٹر، سپورٹر کسی حد تک بجھے بجھے لگے ہیں، اگر ن لیگ اپنے ووٹروں کو بھرپور طریقے سے نکالنے میں کامیاب رہی تو انہیں فائدہ ہوپائے گا، ایسی صورت میں ن لیگ مع آزاد اس صورت میں دس سے بارہ سیٹیں نکال سکتے ہیں۔

Related Posts