بجٹ 2021کیسا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جب بھی مئی کا مہینہ آتا ہے تو پاکستان کے عوام بڑے اضطراب اور آس کے ساتھ ہر گزرنے والے دن کا اور اس دن کے نتیجے میں ہونے والی ٹی وی پر گفتگو کا بغور جائزہ بھی لیتے ہیں، اور ایک ایونٹ جس کا انتظار کرتے ہیں وہ ہے بجٹ، عوام کی امید ہوتی ہے کہ آنے والا بجٹ نہ صرف مہنگائی کم کرے گا، بلکہ روزگار کی فراوانی بھی ہوگی۔

لیکن جب بجٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ریلیف تو بھول جائیں بلکہ اس بجٹ کے نتیجے میں نئے ٹیکسز ڈال دیئے گئے اور جو موجودہ اخراجات تھے وہ کئی گنا بڑھ گئے ہیں، اس سال بھی عوام اسی امید کے ساتھ 11جون کو پیش ہونے والے بجٹ کا انتظار کررہے ہیں، لوگوں کو اُمید ہے کہ یہ بجٹ نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرے گا بلکہ مہنگائی بھی کم کرے گا،سرکاری ملازمین کی بھی یہ امید ہے کہ بجٹ 2021اُن کے لئے 10فیصد سے لیکر 25تک اُن کی تنخواہوں میں اضافہ کرے گا۔

آج کے کالم میں میں اس بات کو باور کروانا چاہوں گا کہ آپ اپنی امیدیں لگانیں سے پہلے جو مندرجہ ذیل حقائق ہیں اُن کو ایک بار ضرور دیکھ لیں پھر عوام اپنی امیدیں لگائیں۔

پاکستان کا پچھلے سال کا بجٹ 6ہزار 911ارب کا تھا، جبکہ ابھی جو بجٹ کی لے آؤٹ بتائی جارہی ہے وہ 7ہزار 294ارب کی ہے، جوکہ سال 2020-21کا ہوگا، اگر آپ اس سال جو آنے والا بجٹ ہے اس کو دیکھیں اور پچھلے سال کے بجٹ کو دیکھیں تو اس میں کوئی تقریباً 45فیصد یعنی پچھلے سال کے بجٹ میں 3214ارب کے روپے کے قریب ہمیں قرضہ جات کی مد میں سود یا پھر قرضے کی جو اقساط ہیں وہ ہم نے دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بجٹ کا تقریباً 45سے 50فیصد حصہ جو وہ قرضہ جات یا ان سے منسلک سود کی ادائیگی میں چلا گیا۔

جو بقیہ بجٹ رہ گیا اس میں سے ایک پورشن جوکہ پاکستان کی جیو اسٹریٹجک لوکیشن اور سیکورٹی کے مسائل درپیش ہیں ان کی وجہ سے اورہمیں ملٹری اور دوسرے لائن انفورسمنٹ ادارے ہیں ان کے لئے مخصوص کیا گیا جو ایک ہزار اور کچھ ارب تھا، اس کے بعد جو بجٹ کی رقم بچتی ہے اس میں جو غیر ترقیاتی اخراجات ہیں،ان کا ایک اچھا خاصا حصہ شامل ہے، اور جو ترقیاتی اخراجات ہیں وہ تقریباً 600سے ایک ہزار ارب روپے کے رہ جاتے ہیں، اُن 600سے ایک ہزار ارب روپے میں بھی آدھے ہی خرچ ہوپاتے ہیں، اور وہ خرچ جس طریقے سے ہوتے ہیں اس سے بھی عوام بخوبی واقف ہیں۔

اگر اس بجٹ کو دیکھا جائے تو ایک مشہور مثال ہے کہ دھونا کیا اور نچوڑیا کیا تو اُس کے مصداق پاکستان کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے بچتا ہی کچھ نہیں ہے۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سال آنے والے بجٹ کو دیکھا جائے تو یہ ہمیں بخوبی پتہ چل جائے گا کہ 2021-22کا بجٹ بھی پچھلے بجٹ سے مختلف نہیں ہوگا، بلکہ کچھ خدشات ہیں، وہ بھی میں آپ کے گوش گزار کرتا چلوں۔

پہلی بات جو بجٹ کا پہلا سب سے بڑا خطرہ نظر آرہا ہے وہ 2021-22کے بجٹ کا ٹارگٹ بہت زیادہ اونچا سیٹ کیا گیا ہے، پچھے سال حکومت کے جو اخراجات تھے وہ 4950ارب کا سیٹ کیا گیا، اس سال اسے بڑھا کر تقریباً 6300تک یا اس سے بھی زائد پر لے گئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایک ہزار ارب سے زیادہ کے ریونیو کو بڑھنے کی توقع کی جارہی ہے، پچھلے سال بھی حکومت نے آئی ایم ایف کی بات مانتے ہوئے، خود ٹارگٹ سیٹ کیا تھا، جس کی وجہ سے کاروباری افرا داور عام عوام بھی بہت زیادہ غم و غصہ پایا جاتا تھا۔

اور شاید یہی وجہ تھی کہ سابق ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کو اپنی پوسٹ سے استعفیٰ دینا پڑا، تو پہلی چیز یہ کہ اس بجٹ کا جو ٹارگٹ ہے وہ بہت زیادہ بلند نظر ہے، حکومت کو اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، لیکن حکومت اس پر نظرثانی نہیں کرے گی، کیونکہ آئی ایم ایف کے زیر سایہ جب بجٹ بنے گا تو ٹارگٹ ایسے ہی رکھنے پڑیں گے، دوسری اہم بات جو سننے میں آرہی ہے وہ یہ کہ حکومت نے اس سال بھی بجٹ میں زراعت کو خاطر خواہ ترجیح نہیں دی، اس اس سیکٹر کو کوئی زیادہ پیسہ نہیں دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایس ایم ایز اس کے بارے میں بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ اس کے حوالے سے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ہیں، چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں پاکستان میں تقریباً 90فیصد سے زیادہ اگر اس طبقے کو نظر انداز کردیا گیا تو جو معاشی اہداف جس کی حکومت اور اسٹیٹ بینک بات کرتا ہے اس کو حاصل ممکن نہ ہو، تعلیم کے حوالے سے عمران خان صاحب بہت باتیں کرتے تھے، مگر اس سال بھی ہمیشہ کی طرح تعلیم کے لئے بجٹ کی جو ایلو گیشن سننے میں آرہی ہیں وہ بہت کم ہیں، بالخصوص جو پرائمری سطح کی تعلیم ہے اس کے بارے میں صوبوں کے ساتھ مل کر کوئی خاطر خواہ اقدامات بھی نہیں کئے گئے، اور بجٹ میں اُس حوالے سے کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے۔

پچھلے سال ہماری زراعت کو ٹڈی دل اور اس طرح کی جو دوسری آفات تھی اس کی وجہ سے بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس سال یہ توقع کی جارہی تھی کہ اس سے نمٹنے کے لئے زراعت کو بہت زیادہ فوکس کیا جائے گا، اور بجٹ میں اچھا پیسہ اس کے لئے رکھا جائے گا، مگر ابھی تک جو چیزیں سامنے آرہی ہیں اس میں ایسا کوئی اقدام ہوتا نظر نہیں آرہا۔

یوٹیلیٹی میں گیس، بجلی اور جو دوسری اشیاء ہیں ان کے حوالے سے جو سننے میں آرہا ہے، بجٹ میں خاطر خواہ ٹیکسز بڑھائے جارہے ہیں، جس میں ان کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی جو نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعتی صارفین بھی اس سے بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔

پاکستان کی برآمدات میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، ابھی بھی ہماری بر آمدات تقریباً 21بلین ڈالر کی ہیں، پاکستان کی برآمدات بہت آسانی سے 25بلین ڈالر تک جاسکتی ہیں، لیکن حکومت نے اس سال بھی بر آمدات بڑھانے والی انڈسٹری کے بجائے ڈومیسٹک انڈسٹری کے اوپر زیادہ ترجیح دی ہے، یہ جو تمام چیدہ چیدہ باتیں اوپر کالم میں تحریر کی گئی ہیں، اس کی روشنی میں عوام سے یہ تو نہیں کہوں گا کہ وہ اپنی امیدیں توڑدیں لیکن میری ان سے گزارش یہی ہوگی کہ اپنی امیدوں کو کم رکھیں، بہت زیادہ امیدیں لگانے کے بجائے ٹیکس دینے پر توجہ دیں، کیونکہ پاکستان میں اس وقت ٹیکس جی ڈی پی ریشو 10 فیصد سے بھی کم ہے، یہ ریشو کم ہونے کی وجہ سے ہمارے بجٹ کے ریو نیو بھی کم ہیں۔

Related Posts