بجٹ 2020 اور معاشی اعشاریے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وفاقی بجٹ سے قوم کو بیشمار توقعات وابستہ تھیں بالخصوص بزنس سیکٹر کو امید تھی کہ حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بڑی صنعتوں کو مراعات دیگی ۔ ٹیکسٹائل، زراعت، لیدر، خوراک سمیت تعمیراتی شعبہ بھی بجٹ سے مایوس دکھائی دیتا ہے۔

ٹیکسٹائل سیکٹر نے حکومت کو بجٹ کیلئے کچھ تجاویز پیش کی تھیں جن میں ایس آر او 1125پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت سے برآمدات کی مد میں 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس وصول کرکے ری فنڈ کی پالیسی کو تبدیل کرکے دو سے تین فیصد ٹیکس لیکر اضافی ٹیکس کا سلسلہ بند کرنے کی تجویز دی تھی کیونکہ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں ٹیکس کٹوتی کا معاملہ مشکلات میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ٹیکسٹائل سیکٹر نے ڈیوٹیز کی شرح میں کمی بیشی کی تجاویز بھی پیش کی تھیں جن کو نظر انداز کیا گیا۔

زراعت کے شعبہ سے وابستہ لوگوں نے بھی مراعات کیلئے حکومت کی طرف نظریں جمارکھی تھیں ، اس وقت پہلے سے زیادہ مربوط انداز میں صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ کو بھی حکومت سے کئی توقعات وابستہ تھیں جو پوری نہ ہوسکیں۔

7ہزار2 سو 94ارب کے وفاقی بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو 4ہزار963ارب محصولات کا ہدف دیاگیا ہے۔ گزشتہ سال یہ ہدف 5 ہزار 555 تھا لیکن حکومت بمشکل 3 ہزار 908ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ اپنے ہدف سے تقریباً 16 سو ارب سے زائد کا نقصان حکومت نے برداشت کیا جبکہ اہم بات تو یہ ہے کہ حکومت نے گزشتہ سال جمع ہونیوالے محصولات سے ایک ہزار ارب زائد کا ہدف رکھا ہے۔

حکومت نے وفاقی بجٹ میں سبسڈیز کی مد میں تقریباً 2 سو ارب روپے مختص کئے ہیں لیکن یہاں  یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ آئندہ مالی سال قرضوں پر سود کی مد میں 3ہزار 2 سو ارب روپے خرچ کئے جائینگے جبکہ حکومت نے بجٹ میں 2 ہزار 946ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور عوامی فلاحی منصوبوں کیلئے 7سو92 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

3 ہزار ارب سود ادا کرنے کے بعد حکومت کے پاس دیگر امور کو رواں رکھنے اور عوامی فلاح و بہبود کیلئے انتہائی قلیل رقم بچتی ہے ایسے میں ترقیاتی منصوبوں کی امید رکھنا عبث ہے۔

تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود حکومت کئی شعبہ جات کو سبسڈی دیئے بغیر یا کم سبسڈی دیکر ان کو قومی دھارے میں شامل کرسکتی تھی جس میں زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔

خوراک سے لیکر ٹیکسٹائل تک زرعی شعبہ ہر طرح کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ،معاشی ماہرین بھی اس بات سے متفق ہیں کہ حکومت کورونا وائرس کی وجہ سے درپیش مشکلات کے دوران زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں پر توجہ دیکر معاشی مسائل پر قابو پاسکتی ہے ۔

امسال زرعی شعبہ کو پہلے سے زیادہ توجہ کی ضرورت تھی، ٹڈی دل کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے جبکہ رواں سال پہلے سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کی پیشگوئی بھی کی جاچکی ہے جس کی وجہ سے فصلیں تباہ ہونے سے کاشتکاروں کو بھاری نقصان ہوسکتا ہے لیکن حکومت نے زرعی شعبہ کو یکسر انداز کردیا اور جب حکومت اس شعبہ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے تو اس سیکٹر سے کوئی امید بھی رکھنا نامناسب ہے۔

پوری دنیا اس وقت ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جارہی ہے اور پاکستان میں بھی آئی ٹی کا شعبہ اپنی افادیت کا لوہا منوا رہا ہے لیکن پاکستان میں  انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت آئی ٹی سیکٹر میں اصلاحات متعارف کرواتی اور ایز آف ڈوئینگ پالیسی اپنا کر اس شعبہ کو مزید بہتری کا موقع دیا جاسکتی اور آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ لوگوں کی مشکلات کم کی جاسکتی تھیں لیکن حکومت نے اس اہم ترین شعبہ کو بھی درخور اعتنانہیں سمجھا۔

ایس ایم ایز کو معاشی ترقی کا انجن قرار دیتے کے باوجود حکومت اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز یا چھوٹی صنعتوں کیلئے کوئی اصلاحات یا مراعات نہیں  دیں ، پاکستان میں ایس ایم ایز سیکٹر میں بیش بہا مواقع موجود ہیں، اگر ہم فشریز کے شعبہ کی ہی مثال لیں تو پاکستان سے فشریز مصنوعات کی برآمدات کا حجم تقریباً 450 ملین ڈالر ہے۔

اس شعبہ میں اصلاحات ،بنیادی مسائل ختم اور ٹیکس کی شرح کم کرکے حکومت باآسانی فشریز سیکٹر کی برآمدات کو ایک ارب ڈالر تک لیجاسکتی ہے۔

بھارت ،سری لنکا اور بنگلہ دیش پاکستان کے مقابلے سمندری خوراک کی برآمدات سے کئی گنا زیادہ زرمبادلہ کما رہے ہیں، پاکستان بھی اس شعبہ پر توجہ دیکر اپنی برآمدات بڑھاسکتا ہے۔

فشریز کے علاوہ ملک میں سیکڑوں ایسے شعبہ جات ہیں جن کو قومی دھارے میں لاکر حکومت محصولات میں اضافہ کرسکتی ہے اور ملک کی معیشت کو بھی سہارا دیا جاسکتا ہے۔

حکومت نے زراعت، آئی ٹی اور چھوٹے اور درمیانے درجہ کے کاروبار کو یکسر نظر انداز کیا ، کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی نقصان کے برعکس حکومت کے ان اقدامات کے پیش نظر ملک کی معاشی صورتحال میں سدھار یا بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔

موجودہ وفاقی بجٹ کو دیکھتے ہوئے کاروباری طبقے کو منی بجٹ کے خدشات نے بھی پریشان رکھا ہے۔ برنس کمیونٹی کا ماننا ہے کہ اگر حکومت نے موجودہ بجٹ میں کوئی مراعا ت نہیں رکھیں تو منی بجٹ اس سے بھی بدترین ہوسکتا ہے۔

وفاق کے ساتھ ساتھ سندھ اور پنجاب نے بھی بجٹ میں چھوٹے اور درمیانے کاروبار کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظر انداز کرکے عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔

تمام تر حالات اور بجٹ کے اعشاریوں کو دیکھتے ہوئے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ متوقع ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ابتری معاشی حالات کا سامنا کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار رہنا چاہیے۔

Related Posts