دوسری جنگ ِ عظیم عروج پر تھی جاپانی انتہائی پرجوش اندازمیں جنگ لڑرہے تھے کہ اچانک امریکہ نے شکست کے خوف کے پیش ِ نظر ایٹم بم ا ستعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی کانگریس کے کچھ ممبران یہ فیصلہ سن کر لرز اٹھے،انہوں نے بھرپور مخالفت بھی کی لیکن اکثریت کے سامنے ان کی ایک نہ چلی یقینا انسانیت اس روز بہت چیخی چلائی ہوگی امریکہ نے پہلا ایٹم بم جاپانی شہر ہیروشیماپر برسایا عینی شاہدین کا کہناہے ہمیں محسوس ہوا جیسے قیامت بپاہوگئی ہو۔
ایٹم بم اٹیک کے پہلے ایک منٹ کے دوران پورے شہرکی آکسیجن جل گئی اورآناً فاناً70000افراد موت کے منہ میں چلے گئے دوسرے منٹ میں بہت سی بلڈنگوں میں آگ بھڑک اٹھی جو لوگ ایٹمی تابکاری اثرات سے کچھ کچھ محفوظ تھے آگ میں جھلس گئے صرف پانچ منٹ کے دوران ایک لاکھ سے زائد جاپانی شہری لقمہ ئ اجل بن گئے۔
آج سے پون صدی پہلے 6 اگست1945 کو امریکی جہازEnola Gayنے جاپانی شہر ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا اسے لٹل بوائے کا بے ضرر نام دیا گیاحملے کے وقت اس شہرکی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی فوری طورپر70000افراد لقمہ ئ اجل بن گئے۔
ایٹم بم گرانے کے کئی ماہ بعد ٹوکیو میں ایک بڑے سے ہال میں بہت سے افراد بیٹھے ہوئے تھے کئی مضطرب ٹہل رہے تھے دیواروں پر درجنوں سکییچ آویزاں تھے کسی پرلاتعداد کھوپڑیوں کی تصویر۔ایک پر تڑپتے ہوئے گول مٹول بچے۔ کسی پر دھویں کے بادلوں میں بے جان فاختہ زمین پر گرتی دکھائی دے رہی تھی۔ایک مخصوص گھنٹی کی آوازپر سب الرٹ ہوکر بیٹھ گئے۔
اسٹیج پرحکومتی عہدیدار، ابتدائی نشستوں پر سائنسدان بڑے بڑے سرکاری،ان کے سامنے فوجی افسر،ماہرین معاشیات سماجی رہنما سیاستدان اور دیگر افرادبرا جمان تھے سب کا موضوع ایک ہی تھا کہ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گراکر بہت بڑے جنگی جرم کا ارتکاب کیاہے اس کا انتقام کیسے لیا جائے؟ نوجوان انتہائی پر جوش تھے مرنے والوں کے لواحقین میں انتہائی اشتعال تھا وہ ہر قیمت پر امریکہ کو مزا چکھانا چاہتے تھے۔
اس سلسلہ میں مختلف لوگ آتے سٹیج پر رکھے ڈائس پر کھڑے ہوکر اپنی تجاویز دیتے اور بیٹھ جاتے اسی اثناء میں ایک نوجوان نے کہا ہم نے ایک ”ہارا کاری“ گروپ تشکیل دیا ہے(زندگی سے بیزارکئی جاپانی خود کو اذیت دے کر خود کشی کرلیتے ہیں اس عمل کو ہارا کاری کہا جاتا ہے) ہم جاپان مخالف ممالک کو عبرت کا نشان بنانے کیلئے ان ملکوں میں پر تشدد کاروائیاں کرکے ہارا کاری کرلیں گے ہمیں اس کی اجازت دی جائے۔۔۔کئی گھنٹوں کے بحث و مباحثے کے بعد ایک جاپانی جنرل اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اس نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا پھر جنگ و جدل ۔ مارا ماری؟
یہ سن کر ایک نوجوان تیزی سے اٹھا۔۔۔ تنک کر بو لا۔۔۔ بزدل کہیں کا۔۔۔۔ جاپانی جنرل نے کہاتم جو مرضی کہو میں اتنا جانتاہوں جاپان کمزور نہ ہوتا تو ہم یہ جنگ کبھی نہ ہارتے۔ وہ تو امریکہ نے ایٹم دے مارا۔۔۔ نوجوان نے بے بسی سے جواب دیا ورنہ ہم جیت سکتے تھے۔
یہ سن ایک مفکرنے چیختے ہوئے ہال کی دیواروں پر لگی تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ ہے جنگ کا انجام۔۔۔ جو سب کے سامنے ہے
”پھرکیا کیا جائے۔۔۔ایک آواز گونجی
”انتقام لینے کا ایک طریقہ اور بھی ہے۔صورت سے ہی ذہین وفطین شخص کہنے لگا