معاشی پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اکثر حکومت پر تنقید تو بہت کی جاتی ہے مگر معاشی مسائل کا حل پیش نہیں کیا جاتا،دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں چند چیزیں مشترک نظر آتی ہیں، پہلی چیز پالیسیوں کا تسلسل، معیشت چند مہینوں یا سال میں درست ہونے والا مضمون نہیں، کسی بھی ملک کی معیشت کو پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے 15سے 20سال چاہئے ہوتے ہیں، یعنی 15سال تک مربوط اور درست معاشی پالیسی پر عمل کرکے حقیقی معاشی ترقی کے ثمرات لئے جاسکتے ہیں، کیونکہ 15سال کی مدت میں کئی حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں، لوگوں کے پورٹ فولیو بھی تبدیل ہوتے ہیں، لیکن ضروری یہ ہوتا جو پالیسی پہلے دن بنائی گئی تھی، ہر نئی آنے والی حکومت اسی پالیسی کو آگے لے کر چلے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر حکومت کا اپنا مخصوص سیاسی منشور ہوتا ہے، اور اس پر عملدرآمد کرانے کے لئے ہر حکومت کو ماضی کی پالیسیوں سے انحراف کرنا پڑتا ہے، بالخصوص پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں پر ہر چند سالوں کے بعد حکومت تبدیل ہوجاتی ہے، وہاں پر معاشی پالیسیوں کا تسلسل کس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے، حکومت کے تبدیل ہونے کے ساتھ ضروری نہیں کہ پچھلی حکومت کی پالیسیاں بھی تبدیل کردی جائیں، مثال کے طور پر پچھلے 57سالوں کے دوران جاپان کے 45وزیر اعظم تبدیل ہوئے، اس کے باوجود جاپان کی ترقی مثالی ہے، اسی طرح اٹلی میں وزیر اعظم تبدیل ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان کی معاشی پالیسی پر فرق نہیں پڑتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک معاشی پالیسیوں کو بنانے کے لئے اپنی بیورو کریسی کو بروئے کار لاتے ہیں، جبکہ سیاستدان قانون سازی کرتے ہیں، سادہ لفظوں میں معاشیات چلانے کا کام بیورو کریٹ اور ٹیکنو کریٹ کو دیا جاتا ہے اور قانون سازی کا کام سیاستدانوں کو، پاکستان میں بد قسمتی سے وزراء سپر ہیرو بن کر چند دنوں میں محکمے کو تبدیل کرنے کی کوشش میں اس کا بیڑہ غرق کردیتے ہیں، یا پھر اپنی وزارت سے بالکل بے خبر اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر کرنے کے لئے اپنے اس محکمے کو استعمال کرتے ہیں، سادہ سا اصول یہ ہے کہ قابل اور خود مختار بیورو کریسی ہو جوکہ ملک کی معاشی باگ دوڑ سنبھالے اور ہر آنے والی حکومت قانون سازی کے لئے ان کی کارکردگی پر نظر رکھے۔

دوسرا نقطہ قومی اداروں کا مضبوط ہونا، قومی ادارے جس میں ٹیکس اکھٹاکرنے والے اداروں سے لے کر کسٹم کلیئر کرنے والے تمام ادارے شامل ہیں جوکہ سرکار کی سرپرسی میں معاشی امور سر انجام دیتے ہیں، ان اداروں کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے، اگر کسٹم کلیئر کرنے والا ادارہ اپنے عمل کو آہستہ اور سست کردے یا رشوت زدہ بنادے، تواس کا پورے ملک کی در آمدات اور بر آمدات پر اثر پڑے گا، ترقی یافتہ ممالک میں ایسے اداروں کو نہ صرف قابل اور پڑھے لکھے افسران کے ذریعے چلایا جاتا ہے، بلکہ ان کی ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچہ بھی شاندار ہوتا ہے، بہترین بنیادے ڈھانچے اور قابل انسانی وسائل سے لیس یہ ادارے قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، بد قسمتی سے ہمارے قومی ادارے نہایت ہی ابتری کا شکار ہیں، معاشی ترقی کے لئے ان اداروں کو مضبوط کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔

تیسرا نقطہ ہے دور تک سوچنا، سی پیک جس پروجیکٹ کا حصہ ہے اُس کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کہا جاتا ہے، اس پروجیکٹ پر عملدرآمد تو غالباً 2012میں شروع ہوا، لیکن چائنا نے اس پروجیکٹ کے بارے میں سوچ و بچار کا سلسلہ 80کی دہائی میں شروع کردیا تھا، اور یہ سلسلہ بالآخر اب قابل عمل بنا، اسی طرح جاپان کے پالیسی بنانے والے ادارے موجودہ پالیسیوں کو 50سال بعد ہونے والے حالات کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں، یہی حال دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کا ہے، وہ آج کی معاشی اور معاشرتی پالیسیوں کو اگلے آنے والے 20، 30یا چالیس سال کے حقائق کی روشنی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں، دنیا میں ہر ترقی کرنے والا ملک کوئی بھی پالیسی بناتے وقت اگلے 30یا 40برس کا سوچ رہا ہوتا ہے، ہمارے ہاں اس چیز کا فقدان ہے، ہماری آج بننے والی تعلیمی پالیسی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ 2030ء میں وہ کس طرح پاکستان کے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرے گی، ہمیں پاکستان کے مضبوط مستقبل کے لئے 30سے 40سالوں کی سوچ کو رکھ کر پالیسیاں بنانا ہوں گی۔

چوتھا نقطہ، انسانی وسائل کی تیاری، باوجود اس کے کہ ہماری آبادی کا دوتہائی حصہ 30سال یا اس سے کم لوگوں پر مشتمل ہے، ہمیں ابھی تک یہ علم نہیں کہ انسانی وسائل کا یہ ذخیرہ ملک کی ترقی کے لئے کس طرح استعمال ہوگا؟ انسانی وسائل کو استعمال کرنے کے تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن تعلیم ایک موثر ہتھیاراُس وقت ثابت ہوتی ہے، جب اس کو ایک طویل مدتی نظام دیا جائے، تعلیمی نظام معاشرے کی معاشی اور معاشرتی مستقبل کا تعین کرتا ہے، ترقی یافتہ معاشرے تعلیمی نظام ترتیب دیتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رکھتے ہیں کہ تعلیم کے مقاصد کیا ہوں گے؟

معاشرے کو کس طرح کے انسانی وسائل درکار ہیں اور آج سے چالیس سال کے بعد کس طرح کے انسانی وسائل درکار ہوں گے، ان تمام تر سوالوں کے تسلی بخش جوابات سامنے رکھتے ہوئے ایک مضبوط نظام تعلیم ترتیب دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ تعلیم دینے والے اساتذہ کو ایک خاص تربیت دی جاتی ہے، ایسا نظام تعلیم معاشرے کے انسانی وسائل کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے اور فرد کو ایک اچھا شہری بھی بناتا ہے، غرض یہ کہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل، مضبوط قومی ادارے، لانگ ٹرم وژن اور مربوط نظام تعلیم کسی بھی ملک کے بہتر معاشی اور معاشرتی مستقبل کے لئے نہایت اہم ہوتے ہیں۔

Related Posts