کیا نگراں صوبائی حکومتیں الیکشن کرائیں گی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سب سے پہلے تو یہ اعتراف کہ میرے پاس ا س سوال کا کوئی واضح یا متعین جواب نہیں ہے۔ ہم اندازے ہی لگا سکتے ہیں، پنجابی زبان میں ٹیوے لگانا سمجھ لیں۔

سازشی تھیوریز

 اس حوالے سے دو تین سازشی تھیوریز چل رہی ہیں۔ سازشی تھیوریز یا نظریات کا مسئلہ یہ ہے کہ کئی بار یہ غلط اور بے بنیاد ثابت ہوتی ہیں، مگر کبھی یہ درست بھی نکل آتی ہیں۔ اس لئے انہیں ایسے اٹھا کر ڈسٹ بن میں نہیں پھینکا جا سکتا، ان کا تھوڑا بہت تجزیہ کر لینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

پی ڈی ایم نے اچانک استعفے کیوں منظور کئے؟اب کیا ہوگا؟

پہلی سازشی تھیوری

پہلی سازشی تھیوری یہ ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ ایک پلان کے تحت تشریف لائے ہیں۔ یہ لندن پلان تھا اور اسی میں طے تھا کہ نگران وزیراعلیٰ کسے بنوانا ہے، اسی پلاننگ کے تحت ہی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے دستخط سے جاری کردہ لیٹر میں دو نام دئیے گئے، ایک سابق بیوروکریٹ اور موجودہ وفاقی مشیر احد چیمہ ، دوسرے نجی چینل نیٹ ورک کے سربراہ محسن نقوی۔

اس تھیوری کے مطابق احد چیمہ کا نام دینے کی کوئی تُک نہیں تھی کیونکہ وہ شہباز شریف کے چہیتے بیوروکریٹ رہے ہیں اور اس وقت بھی وفاقی مشیر ہیں، تحریک انصاف میں کوئی بھی شخص بقائمی ہوش وحواس احد چیمہ کو نگران وزیراعلی کے طور پر قبول نہیں کر سکتا تھا۔ یہ بات ن لیگ کو اچھی طرح معلوم تھی، مگر انہوں نے یہ نام دانستہ ڈالا تاکہ اسے مسترد کر کے دوسرے نام یعنی محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ بنایا جائے ۔

مبینہ لندن پلان

اس تھیوری کے مطابق لندن پلان ہی میں شامل تھا کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے دئیے گئے نام ہرگز تسلیم نہیں کرنے، پارلیمانی پارٹی میں بھی یہ رویہ اپنانا ہے اور یوں اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کرے گااور وہاں سے یہ توقع تھی کہ وہ وہی فیصلہ کرے گا جو پی ڈی ایم حکومت چاہتی ہے ۔ (ویسے ہوا بالکل اسی تھیوری کے مطابق )

اب یہاں پر ایک اور پہلو ہے کہ تحریک انصاف نے جو نام دئیے ، ان میں بھی مسائل تھے۔ مثال کے طور پر ناصر کھوسہ صاحب کانام دیا گیا، یہ بہت اچھا انتخاب تھا کیونکہ کھوسہ صاحب ن لیگی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری رہے ہیں۔ ایماندار بیوروکریٹ کی شہرت رکھتے ہیں اور چونکہ ن لیگی حکومت میں پرنسپل سیکرٹری جیسا اہم عہدہ ان کے پاس تھا تو کوئی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ وہ تحریک انصاف کے قریب ہیں۔ گڑ بڑ یہ ہوئی کہ ناصر کھوسہ سے پہلے بات نہیں کی گئی یا کچھ اور ہوا کہ کھوسہ صاحب کا نام ٹی وی پر آنے کے بعد ان کی طرف سے معذرت کر لی گئی کہ میں نگران وزیراعلیٰ بننا نہیں چاہتا۔ یوں تحریک انصاف نے ایک نقصان اٹھایا۔

دوسرا نام احمد نواز سکھیرا صاحب کا تھا ، یہ بھی بیوروکریٹ ہیں اچھی شہرت کے حامل ، مگر اس معاملے میں خوفناک قسم کی نااہلی یہ ہوئی کہ ابھی وہ ریٹائر نہیں ہوئے تھے، ان کی ریٹائرمنٹ میں چند دن رہتے تھے، یوں ابتدا میں تکنیکی مسئلہ پیدا ہوا۔ عمران خان کو تحقیق کرنی چاہیے کہ کون سا دانشمند تھا جس نے یہ نام دیا۔ ایک نام سابق وفاقی وزیر نصیر خان کا بھی چلتا رہا، بعد میں پتہ چلا کہ ان کی دوہری شہریت ہے جو قانونی طور پر ممنوع ہے۔
ناصر کھوسہ کی جگہ پر سابق بیوروکریٹ نوید اکرم چیمہ کا نام دیا گیا۔یہ نواز شریف کے تیسرے دورمیں چیف سیکرٹری پنجاب بھی رہے ہیں، ان کی وجہ شہرت پاکستان کرکٹ ٹیم کے مینیجر کے طور پر ہوئی جب وہ قومی ٹیم کے ساتھ 2015 ورلڈ کپ میں بطور مینجر گئے۔ نوید اکرم چیمہ مختلف اوقات میں یہ ذمہ داری نبھاتے رہے، وہ سخت گیر ڈسپلن کے پابند منیجر کی شہرت رکھتے تھے ۔ بظاہر یہ نام بہت اچھا اور بہتر تھا، مگر بعد میں پی ڈی ایم کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے خلاف نیب انکوائریز بھی ہوتی رہی ہیں۔
بہرحال جب معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس گیا تو اس نے گہرے غور و خوض کے بعد محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کر دیا، جن کی شہرت آصف زرداری کے قریبی ساتھی کی ہے، ان کا ٹی وی چینل فورٹی ٹو سخت اینٹی عمران مؤقف رکھنے کی شہرت کا حامل ہے۔ محسن نقوی لندن میں پی ڈی ایم مذاکرات میں بھی شریک ہوتے رہے، ان کی شریف فیملی سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔

دوسری سازشی تھیوری

ایک دلچسپ سازشی تھیوری جسے لاہور کے صحافتی حلقوں میں لانچ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ یہ کہ محسن نقوی دراصل ن لیگ کے نہیں، صرف پیپلز پارٹی کے آدمی ہیں اور ان کا مقصد پیپلزپارٹی کو سپورٹ کرنا ہے، خاص کر جنوبی پنجاب میں کچھ نشستوں کا اضافہ ، جس سے ظاہر ہے ن لیگ کو نقصان ہوگا، اس لئے تحریک انصاف کو نہیں گھبرانا چاہیے۔ اصل ہدف ن لیگ ہے۔ یہ اور بات کہ اس سازشی تھیوری سے عمران خان متفق نظر نہیں آ رہے، وہ کھل کر محسن نقوی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ اب تو تحریک انصاف نے اس تقرر کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کر دیا ہے ۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ

سازشی نظریات سے ہٹ کر الیکشن کمیشن کا محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کرنا نامناسب اور غلط فیصلہ ہے کیونکہ وہ سیاسی اعتبار سے ایک واضح اور جانبدارانہ پوزیشن رکھتے ہیں۔ زرداری صاحب کے بہت قریبی ساتھی ہونے کے ناتے انہیں کس طرح غیر جانبدار کہا جا سکتا ہے؟ بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف کی جانب سے دئیے گئے بیوروکریٹس کو بنا دیا جاتا کہ ان میں سے کسی کی تحریک انصاف سے کوئی وابستگی نہیں۔ الیکشن کمیشن چاہتا تو نئے نام بھی مانگ سکتا تھا۔ ایسا کرنے کے بجائے ایک متنازع فیصلہ کیا گیا۔

کے پی میں پنجاب کے برعکس اتفاق رائے ہوگیا اور ایک سابق بزرگ بیوروکریٹ اعظم خان نگران وزیراعلیٰ بن گئے ۔ پرویز خٹک نے یہ کام کر دکھایا اور اکرم درانی کے ساتھ بیٹھ کر اتفاق رائے کر لیا۔ سازشی تھیوری والے کہتے ہیں کہ یہ بھی لندن پلان کا حصہ تھا کہ پنجاب میں اتفاق رائے نہیں کرنا اور فیصلہ الیکشن کمیشن کرے جبکہ کے پی میں اتفاق رائے کر لینا ہے تاکہ دونوں کیس مختلف نظر آئیں۔

پنجاب کی نگران کابینہ

نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے 11 رکنی کابینہ کا اعلان کیا، اس میں 8 وزرا نے حلف اٹھا لیا ہے ، دو وزرا کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے معذرت کر لی یا تاخیر کی شاید کوئی اور وجہ ہو جبکہ گیارھویں وزیر اس وقت بنگلہ دیش میں کرکٹ لیگ کھیل رہے ہیں۔

پنجاب کی نگران کابینہ میں جو نام دئیے گئے ہیں، وہ دلچسپ ہیں۔ ان میں زیادہ تر نئے اور غیر معروف لوگ ہیں، ایسے جو شائد کبھی خواب میں بھی وزیربننے کا نہیں سوچ سکتے تھے، مگر ان کی لاٹری بہرحال نکل آئی اور وہ اس وقت نگران صوبائی وزیر پنجاب ہیں۔

ان میں صحافی عامر میر بھی ہیں، یہ معروف اینکر حامد میر کے چھوٹے بھائی ہیں، نجی چینل سے بھی وابستہ رہے، کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنا یوٹیوب چینل گگلی شروع کیا ، یہ سخت اینٹی عمران اور پرو پی ڈی ایم چینل سمجھا جاتا ہے، عامر میر بھی پیپلزپارٹی سے قریب ہیں۔

ایک صاحب بلال افضل ہیں ، یہ نوجوان پنجاب کے ایک معروف نجی کالج نیٹ ورک کے سی ای او افضل صاحب کے صاحبزادے ہیں، دنیا میڈیا ہاﺅس سے بھی ان کا قریبی تعلق ہے اور یہ کچھ عرصہ وہاں انتظامی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے۔

ایک اور نوجوان ابراہیم حسن مراد ہیں۔ یہ لاہور کی معروف نجی یونیورسٹی یو ایم ٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کے والد حسن صہیب مراد کا تعلق جماعت اسلامی کے نظریاتی حلقے سے تھا، دو تین سال پہلے ایک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا، ابراہیم مراد کے دادا جماعت اسلامی کے ممتاز رہنمااور دانشور خرم مراد تھے۔ ابراہیم مراد البتہ اس طرح جماعتی یا نظریاتی حلقے سے تعلق نہیں رکھتے۔
ایک خاتون تمکنت کریم کا نام آیا ، یہ نگران وزیراعلیٰ کے چینل کا بھی حصہ رہیں اور یہ نجم سیٹھی صاحب کے یوٹیوب پروگرام کی میزبان ہیں۔ اینکر، پروڈیوسر سمجھ لیجئے اور وہ بھی اوسط سے کم درجے کیٹیگری کی۔
ڈاکٹر جاوید اکرم لاہور کے معروف معالج ہیں، میڈیکل کے سرکاری اداروں میں اہم ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے ہیں۔ یہ ملک قیوم کے بھائی ہیں جبکہ ن لیگ کے مرحوم رکن اسمبلی ملک پرویز بھی ان کے بھائی تھے، ان کی بھابھی شائستہ پرویز اس وقت بھی ن لیگ کی رکن اسمبلی ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اکرم بھی ن لیگی تصور ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر جمال ناصر  پنڈی میں مختلف کاروبار اور پراپرٹی سکیموں سے متعلق ایک کاروباری شخصیت ہیں۔
ایس ایم تنویر لاہور کے معروف صنعت کار ایس ایم منیر کے صاحبزادے ہیں، ان کے بھی ن لیگ ، پی پی سے اچھے تعلق رہے ۔
نسیم صادق شہباز شریف کے چہیتے بیوروکریٹ تھے، عثمان بزدار دور میں انہیں سیکرٹری خوراک بنایا گیا، مگر آٹے، چینی کے بحران کے بعد ہٹا دیا گیا ، ان کے خلاف انکوائریز بھی چلتی رہیں۔

سب سے عجیب وغریب نامزدگی پلیئنگ کرکٹر وہاب ریاض کی ہے ، وہاب ریاض آج کل بنگلہ دیش پریمئیر لیگ کھیل رہے ہیں، انہوں نے دو ہفتوں بعد پی ایس ایل بھی کھیلنا تھا پشاور زلمی کی جانب سے ۔ وہاب ریاض کو وزیر بنانے کی کوئی تُک یا وجہ سمجھ نہیں آئی۔ وہ کرکٹر ہیں اور پاکستان میں کرکٹ کو پاکستان کرکٹ بورڈ دیکھتا ہے جس کا پیٹرن انچیف وزیراعظم ہے، پنجاب حکومت کا کرکٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔ پھر وہاب ریاض اچانک کہاں سے آگئے؟ لاہور کے صحافیوں کا البتہ دعویٰ ہے کہ وہاب ریاض کے والد محترم کے محسن نقوی صاحب کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور وہاب ریاض پر اسی لئے احسان کیا گیا۔

پنجاب کی نگران کابینہ میں اہم بات یہ ہے کہ ایسا کوئی فرد نہیں جسے وزیر بنا کر کابینہ کا وقار اور اعتبار بلند ہوا ہو، البتہ ایسے کئی نام ہیں جن کا وزیر بننے سے قد بڑھا۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے ان نامزدگیوں سے بڑا مایوس کیا ہے۔ یوں لگا جیسے انہوں نے اپنے تعلقات نبھائے اور غیر سنجیدہ تقرر کئے۔

ایک تنقید یہ بھی ہوئی کہ یہ پنجاب کابینہ نہیں بلکہ لاہور کابینہ ہے کیونکہ اس میں جنوبی پنجاب سے نمائندگی برائے نام ہے اور زیادہ تر لاہور بیسڈ لوگ شامل کئے گئے۔

نگران کابینہ کے پی

خیبر پختون خوا کی نگران کابینہ نے بھی کچھ زیادہ اعتبار یا وقار نہیں بنایا ، اس پر بھی تنقید ہو رہی ہے، تاہم وہاں تنقید کی سطح مختلف ہے، وہاں پر معروف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ نامزد کئے گئے ،ایسے جن کا تعلق تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں سے ہے۔

پندرہ رکنی کابینہ میں اے این پی کے معروف رہنما حاجی عدیل کے صاحبزادے عدنان جلیل شامل ہیں۔ یہ پشاور کی معروف کاروباری شخصیت ہیں۔

پشاور چیمبر آف کامرس کے سابق صدر فضل الٰہی کو بھی نگران وزیر بنایا گیا۔ ان کا کے پی کے گورنر غلام علی سے گہرا اور قریبی تعلق ہے۔

بخت نواز ٹھیکے دار ہیں، تعلق بٹگرام سے ہے، یہ جے یوآئی فضل الرحمان کے حامی ہیں۔

شاہد خان خٹک کو بھی نگران وزیر بنایا گیا، یہ بھی اے این پی کے ہیں اور دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔

حاجی محمد غفران کا تعلق صوابی سے ہے، یہ قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بھی سابق سینیٹر رہ چکے ہیں۔یاد رہے کہ ان کی جماعت بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔

محمد علی شاہ کا تعلق سوات سے ہے، یہ مسلم لیگ ن کے صوبائی سربراہ امیر مقام کے دست راست ہیں۔

حامد شاہ بھی ٹھیکے دار ہیں ، ان کا تعلق بنوں سے ہے، یہ جے یوآئی کے مرکزی رہنما اکرم درانی کے قریبی ساتھی ہیں۔

شفیع اللہ خان اپر دیر سے ہیں، پی پی کے مقامی رہنماﺅں سے ان کی قریبی رشتے داری ہے۔

انڈیپنڈنٹ اردو ویب سائٹ کے مطابق مسعود شاہ کے پی کے نگران وزیراعلیٰ اعظم خان کے سمدھی اور بیچ میٹ ہیں۔ یہ آئی جی پولیس بھی رہ چکے ہیں۔

خوشدل خان سابق فیڈرل سیکرٹری ہیں، یہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما پرویز خٹک کے دوست ہیں۔

ڈی آئی خان کے عبدالحلیم قصوریہ سابق سرکاری ملازم ہیں، یہ بھی نگران وزیراعلیٰ کے دوست ہیں۔

جسٹس ریٹائر ارشاد قیصر سابق جج ہیں، وہ الیکشن کمیشن کے پی کے قائم مقام سربراہ بھی رہے ہیں۔

تاج محمد آفریدی کا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے، یہ2020 میں امیر ترین سینیٹرز میں سے ایک تھے۔

کے پی کی نگران کابینہ پر اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق پی ڈی ایم (اے این پی، جے یوآئی، ن لیگ، پی پی ) سے ہے اور ایک آدھ نام پرویز خٹک کے قریبی ساتھی کا ڈال دیا گیا۔ یہ بھی عجیب ہے کہ نگران وزیراعلیٰ نے اپنے قریبی رشتے دار کو بھی نگران صوبائی وزیر بنا ڈالا۔

کیا الیکشن ہو پائے گا؟

آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر الیکشن کرانا پڑے گا۔ ڈیڈلائن پندرہ سولہ اپریل بنتی ہے، تب ماہ رمضان ہوگا۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں کیا جس پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ تحریک انصاف بھی اس پر تنقید کر رہی ہے ۔ پی ڈی ایم کے حلقوں کی جانب سے یہ اشارے دئیے جا رہے ہیں کہ مردم شماری کے بعد الیکشن ہونے چاہئیں۔ اگر مردم شماری ہوئی چاہے ڈیجیٹل ہی کیوں نہ ہو، اس کی کیلکولیشن اور پھر نئی حلقہ بندی میں کم از کم 6 سے 8 ماہ لگ جائیں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ آئین کے مطابق مقررہ مدت کے دوران صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرا لئے جائیں۔ اگر ایک بار آئین کی خلاف ورزی ہوئی تو پھر یہ معاملہ طول کھینچے گا اورپھر ضروری نہیں کہ پی ڈی ایم بھی اس سے بچ سکے ۔

بس ایک بات بروقت الیکشن کے حق میں جاتی ہے کہ پنجاب کی نگران کابینہ اتنی کمزور ہے کہ ان کا تقرر لمبے عرصے کے لئے نہیں کیا گیا ہو گا۔ ایسی کابینہ مختصر مدت کے لئے ہی بن سکتی ہے۔