پی ڈی ایم نے اچانک استعفے کیوں منظور کئے؟اب کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ڈی ایم نے اچانک استعفے کیوں منظور کئے؟اب کیا ہوگا؟
پی ڈی ایم نے اچانک استعفے کیوں منظور کئے؟اب کیا ہوگا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمران خان میں لاکھ خامیاں سہی، مگر ایک خوبی ہے کہ وہ پہل کرتا ہے اور اس کی مخالف پی ڈی ایم بدحواس ہو کر اس کے چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ پی ڈی ایم کی پوری سیاست ردعمل کی سیاست ہے، پچیس مئی کے پہلے لانگ مارچ سے آج تک ہر اہم واقعے کو اٹھا کر دیکھ لیں، یہی نظر آئے گا۔

اب انہی استعفوں کا معاملہ دیکھ لیجئے۔
عمران خان نے صرف ایک فقرہ کہا کہ ہم قومی اسمبلی میں واپسی پر غور کر رہے ہیں۔

پی ڈی ایم اتنی حواس باختہ ہوگئی، اس قدر بوکھلائی کہ قومی اسمبلی کے نام نہاد سپیکر کو جسے پچھلےآٹھ نو ماہ سے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفے منظور کرنے کا وقت نہیں مل رہا تھا، جو انفرادی طور پر رکن اسمبلی کو وقت دینے کو تیار نہیں، اچانک ہی خواب خرگوش سے ہڑبڑا کر بیدار ہوا اور اکھٹے پینتیس استعفے منظور کر لئے۔

مزے کی بات ہے کہ اس بوکھلاہٹ میں بھی اس بے چارے کو اتنا ضرور یاد رہا کہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما کون سے ہیں۔ وہ کون کون ہیں جو میڈیا پر زیادہ آتے ہیں اور پی ڈی ایم پر تنقید کرتے ہیں، چن چن کر ان کے استعفے منظور کئے گئے، حتیٰ کہ تحریک انصاف کی دو خواتین شوزب کنول اور عالیہ حمزہ جو ٹاک شوز میں زیادہ آتی ہیں انہیں بھی ڈی سیٹ کر دیا ۔

استعفے کیوں منظور کئے گئے ؟
اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر خاصی توڑ پھوڑ ہوچکی ہے۔ ان کے بیس پچیس ارکان اسمبلی پنجاب میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کے خواہش مند ہیں۔ ایسا ہونا فطری ہے۔ ن لیگ کبھی ایک سیاسی یا نظریاتی جماعت نہیں رہی، یہ ہمیشہ الیکٹ ایبلز اور الیکشن جیتنے والوں کا پلیٹ فارم ہے ، اقتدار میں آنے کے خواہشمند اس کا ہمیشہ حصہ بنتے رہتے ہیں۔

اب ان تمام کو لگ رہا ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کا حال پتلا ہے ۔انہین اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف کا جلد ملک لوٹنے کا کوئی ارادہ نہیں، مریم نواز اپنے تمام ہنر سترہ جولائی کے ضمنی انتخابات میں آزما چکی ہے جہاں تحریک انصاف نے اسی فیصد سے زیادہ نشستیں بڑے مارجن سے جیت لی تھیں۔ مریم نواز کے بارے میں یہ طے ہے کہ وہ نواز شریف نہیں اور نہ ویسا امپیکٹ پیدا کر سکتی ہیں۔

ن لیگ کے ارکان کا مخمصہ
ن لیگ کے ارکان قومی اسمبلی کے لئے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر سیٹ پر ایک ایم این اے اور دو ایم پی اے کا پینل بنتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن ہو رہے ہیں تو مسلم لیگ ن کے ارکان صوبائی اسمبلی اپنے حساب سے نئے پینل بنانے کا سوچ رہے ہیں،

اس کا نقصان ن لیگ کے ارکان قومی اسمبلی کو اکتوبر کے ممکنہ جنرل الیکشن میں یہ ہوگا کہ ایم پی اے کی دونوں سیٹیں اگر ہاتھ سے نکل گئیں تو قومی کا انجام بھی ویسا ہوگا۔ اسی لئےان میں سے کچھ لوگ متفکر ہیں، خاص کر جہاں ن لیگ کے حلقے زیادہ مضبوط نہیں۔

قومی اسمبلی میں شہباز شریف بمشکل دو ووٹوں کی اکثریت سے وزیراعظم بنے تھے،اگر پچیس نہ سہی، درجن بھر ارکان قومی اسمبلی باغی ہوگئے اور تحریک انصاف نے انہیں پکی یقین دہانی کرا دی کہ لازمی ٹکٹ ملے گا تو وہ وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے۔ زیادہ سے زیادہ وہ نااہل ہوجائیں گے تو اب جبکہ چند ماہ بعد انتخابات ہونے ہیں، انہین اس کی زیادہ پروا نہیں۔ اب ہر کوئی اگلے پانچ سال کی پلاننگ کرا رہا ہے۔

اگر وزیراعظم اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے تو پھر یہ امکان پیدا ہو سکتا تھا کہ تحریک انصاف کا وزیراعظم بن جائے جو حلف اٹھاتے ہی قومی اسمبلی تحلیل کر دے ۔ یوں پی ڈی ایم کے چودہ جماعتی اتحاد کے ہاتھ میں صرف خاک رہ جانی ۔

سرپرائز پی ڈی ایم کا یا تحریک انصاف کا؟
ن لیگ کے رہنما عطااللہ تارڑ نے بڑے فاخرانہ انداز میں اسے پی ٹی آئی کے لئے سرپرائز کا نام دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو اس کا علم نہیں تھا؟ ان کے لئے کیا مشکل تھا کہ اعلان کرنے کے بجائے اکھٹے چالیس پچاس ارکان اسمبلی قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ جائیں؟

پی ٹی آئی کو علم تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور یہ عمران خان کے پلان کا حصہ ہے کہ ملک بھر میں الیکشن کا ماحول بنایا جائے۔

دو افواہیں جو کنفرم ہوئیں
درحقیقت ایسا کر کے پی ڈی ایم نے دو اندر کی باتیں باہر نکال کر کنفرم کر دیں۔
نمبرایک: یہ کہ پی ڈی ایم کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں، وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے کی پوزیشن میں نہیں اور اگر صدر انہیں ووٹ لینے کا کہیں گے تو یہ ناکام ہوجائیں گے۔

دوسرا یہ کہ ن لیگ کے بیس پچیس اراکین اسمبلی کے حوالے سے افواہیں چل رہی کہ وہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لئے عمران خان سے رابطے میں ہیں۔ اس اقدام سے وہ افواہ خبر بن چکی ہے۔

تحریک انصاف نے ایسا کیوں کیا؟
عمران خان کا اصل پلان شروع ہی سے یہ ہے کہ الیکشن کا ماحول بنایا جائے، دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوں، قومی اسمبلی کی کچھ نشستوں پر الیکشن ہو اور اگر ممکن ہو تو سندھ اسمبلی میں بھی استعفے دئیے جائیں تاکہ چاروں صوبوں میں الیکشن کی فضا بن سکے۔
قومی اسمبلی میں واپسی کی بات کر کے عمران خان نے ایک اہم کارڈ کھیلا، اس سے دو نتائج متوقع تھے ۔
پہلا یہ کہ تحریک انصاف کی کچھ ارکان اسمبلی قومی اسمبلی میں واپس آ جائیں اور آتے ہی لیڈر آف اپوزیشن کے لئے سپیکر کو درخواست دے دیں، چونکہ ان کی تعداد منحرف اراکین بلکہ جی ڈی اے وغیرہ سے بھی زیادہ ہوگی تو سپیکر مجبور ہوجائے گا کہ لیڈر آف دی اپوزیشن کا منصب تحریک انصاف کے نامزد کردہ رہنما کو دے دے۔
یہ بات طے تھی کہ عمران خان نے واپسی نہیں کرنا تھی اور نہ ہی وہ لیڈر آف اپوزیشن کا عہدہ سنبھالتے ، ممکنہ طور پر یہ شاہ محمود قریشی یا پرویزخٹک ہوسکتے تھے۔

ویسے یہ بات آج بھی خارج ازامکان نہیں کیونکہ تحریک انصاف کے ستر سے زیادہ مزید ارکان اسمبلی موجود ہیں اور انہیں صرف تیس ارکان اسمبلی کو قومی اسمبلی میں پہنچانا ہے، یوں راجہ ریاض کی چھٹی ہوجائے گی۔

عمران خان کی ایسسمنٹ یہ تھی کہ حکومت بوکھلا کر استعفے منظور کر لے گی اور چونکہ وہ انتقامی غم وغصہ سے دوچار ہیں، اس لئے صرف پنجاب یا کے پی میں نہیں بلکہ ملک بھر سے نمایاں انصافین ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کریں گے۔

عمران خان کا اندازہ درست نکلا۔
پی ڈی ایم اگر عقلمندی کرتی تو صرف پنجاب میں ایسا کرتی ، یہاں ویسے بھی دو ڈھائی ماہ میں صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن ہو رہا ہے ، یہاں پر اگر قومی اسمبلی کا الیکشن ہو تو وہ کوئی خبر نہ بنتی۔
پی ڈی ایم کے ڈیڈھ شیانوں (نام نہاد ہوشیار)نے اس کے بجائے کراچی اور اندرون سندھ کے چند اراکین اسمبلی کے استعفے بھی منظور کر ڈالے بلکہ بلوچستان سے قاسم سوری کو بھی ڈی سیٹ کر دیا، یعنی اب الیکشن پنجاب، کے پی، اسلام آباد، سندھ اور بلوچستان میں ہوں گے۔ ملک بھر میں الیکشن کی صورتحال بنے گی۔
پی ڈی ایم نے وہی کیا جو عمران خان چاہ رہا تھا۔ اب بھی ان سیانوں کا کہنا ہے کہ خان کو سیاست نہیں آتی اور ہم بڑے کھڑپینچ ہیں سیاست کے۔

یارو وہ زمان پارک کے ایک کمرے میں زخمی ٹانگ کے ساتھ بیٹھا تم سب پرانے گھاگ پاپیوں کو آئوٹ کلاس کر رہا ہے ، اور کیسے اپنی سیاسی مہارت ثابت کرے ؟

آگے کیا ہوگا؟
پی ڈی ایم نے استعفے تو منظور کر لئے، مگر ایک تو ان کے اندر کا خلفشار ظاہر ہوگیا۔ حامد میر جیسے ان کے زبردست حامی کو کہنا پڑا کہ اس طرح شہباز شریف نے اپنی حکومت کو تین ماہ کی ایکسٹینشن دے دی ہے، یعنی میر صاحب کو بھی اندازہ ہے کہ تین ماہ میں جب یہ سیٹیں پھر سے پر ہوجائیں گی تو حکومت خطرے میں آ جائے گی۔

پی ڈی ایم والے دو ضمنی الیکشن سترہ جولائی اور سولہ اکتوبر کو لڑ کر بدترین شکست سے دو چار ہوچکے ہیں۔ اس بار انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان ضمنی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔
مولانا فضل الرحمن کا بیان سب سے دلچسپ ہے ، انہوں نے فرمایا کہ اس کی وجوہات بعد میں بتائی جائیں گی۔ یہ کس قدر بچکانہ بات ہے یعنی فیصلہ ابھی ہوگیا، مگر اس کی وجوہات بعد میں سوچی جائیں گی۔

معلوم نہیں مولانا پوری قوم کو اپنی جماعت کے کارکنوں جیسا بھولا اور سائیں کیوں سمجھتے ہیں ؟

سوال یہ ہے کہ اگر پی ڈی ایم نے الیکشن لڑنا ہی نہیں تو پھر استعفے کیوں منظور کئے ؟

سولہ اکتوبر کوآٹھ سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوا تو پی ڈی ایم کے حامیوں نے دل کھول کر پروپیگنڈہ کیا کہ دیکھیں تحریک انصاف کی وجہ سے ملک کو اربوں کا نقصان ہوا، اتنا خرچہ ہوگا ضمنی الیکشن پر وغیرہ وغیرہ۔

اب پی ڈی ایم اور حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ ان پینتس سیٹوں کے الیکشن پر کتنا خرچہ ہوگا اور یہ خرچ کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ اکانومی تو اکتوبر سے دوگنا زیادہ تباہ ہوچکی ہے۔ دو مزید دلچسپ سوال ہیں۔ پی ڈی ایم کے حامیوں کو ان کا جواب بھی کھوجنا چاہیے۔

اگر عمران خان پہلے کی طرح خود ان سیٹوں پر کھڑا ہوگیا یا اس نے تین چار رہنما نامزد کر دئیے کہ یہ اس کی طرف سے ان سیٹوں پر کھڑے ہوں گے۔ پانچ پانچ سیٹوں پر صرف سات لوگ چاہیے ہوں گے تو پی ڈی ایم کیا کرے گی ؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف بھی ان سیٹوں پر الیکشن نہ لڑے تو اس بیکار کی انتخابی مشق کا کیا فائدہ ہوگا؟
صرف تین چار ماہ کے لئے کون سا مقامی امیدوار پیسہ خرچ کرنا چاہے گا ؟اور اس کے حلف لینے تک قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے کا وقت آ پہنچے گا۔

حرف آخر یہی کہ پچھلے آٹھ ماہ سے عمران خان نے پی ڈی ایم کے جغادریوں کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ وہ انہین سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہا۔ ہر چند دن بعد کوئی ایسی چال چل دیتا ہے کہ پوری حکومت اور اس کے تھنک ٹینک اس کے جواب میں جت جاتے ہیں۔
اللہ شہباز شریف پر رحم کرے، کسی منحوس ساعت میں انہوں نے وزیراعظم بننے کا سوچا تھا۔ تب سے وہ سونے کو ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ مٹی بن جاتا ہے۔ ہر چال الٹ اور ہر تدبیر ناقص اور خام نکلتی ہے۔

Related Posts