حکومت کی بڑی غلطی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے معاملے پر ہونے والے واقعات کے حالیہ سلسلے نے ایک بار پھر عسکری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان اختلافات کو تقویت دے دی ہے جو حکومت کی چیخ  پکار اور حال ہی میں کیے گئے اقدامات سے ثابت ہوا۔ سیاسی پنڈت کچھ عرصے سے یہ اشارہ دے رہے تھے کہ سیاسی پارٹیوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے سخت گیر لوگوں کے غیر معقول مطالبات کے خلاف قیادتوں کا مشترکہ طور پر کھڑا ہونا ضروری تھا۔

قومی محاذ پر سیاسی اور سفارتی چیلنجز کا مقابلہ بین الاقوامی طریقہ کار اور مروجہ تکنیک کے مطابق کیا جاتا ہے، یہ مقابلہ سخت گیر لوگوں کے مطالبات کے تحت نہیں ہوسکتا۔ رینجرز کی جانب سے  ٹی ایل پی کے حالیہ پرتشدد مظاہروں کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کے استعمال سے انکار کے  ذریعے   اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر  ٹی ایل پی پر اپنے مؤقف کی تائید کی۔سوال یہ ہے کہ اس سے اسٹیبلشمنٹ نے اندرون ملک اور عالمی برادری کو کیا پیغام دیا ہے۔ اس نے ٹی ایل پی کے معاہدے کی راہ ہموار کرنے کے بعد حکومت کے ساتھ اپنی شرائط پر انہیں روکنے کے بجائے ان کے مطالبات کی توثیق کی جو فوجی وردی پر حالیہ برسوں میں لگنے والے بہت سے داغوں میں سے ایک اور اہم داغ ہے۔

ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہروں کا اختتام پولیس اہلکاروں اور پاکستانی شہریوں کی 21 لاشوں، سینکڑوں زخمیوں اور حکومت کے ساتھ ایک اور معاہدے کے ساتھ ہوا جو ابھی تک عوامی اسٹیک ہولڈرز کے سامنے نہیں آیا۔ تاہم  یہ معاہدہ آہستہ آہستہ نافذ کیا جا رہا ہے کیونکہ  ٹی ایل پی کے 2000 سے زائد کارکنوں اور گرفتار قیادت کو رہا کر دیا گیا۔ پنجاب حکومت کی کابینہ نے بڑی تیزی سے ٹی ایل پی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کی سمری کی منظوری دے دی اور اسے وزیراعظم کو بھجوا دیا۔ سمری کی منظوری 5 نومبر کو دی گئی۔

وہ ملک بڑا عجیب ہوتا ہے جہاں عوام اور ریاستی ادارے ایک پیج پر نہ پائے جائیں۔ اور سخت گیر گروہوں کو ایک منتخب حکومت گرانے کے لیے استعمال کیا جائے جس سے ایسی بری مثالیں جنم لیتی ہیں جو قوم کو پالیسیوں کے واضح نتائج سے دور کردیتی ہیں۔ ملک میں متعدد مسائل نے جنم لیا جن میں انتشار اور لاقانونیت،  ایف اے ٹی ایف کے مشاہدات، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونا،  سی پیک پر حوصلہ شکنی اور دیگر معاملات شامل ہیں جنہیں گننا شروع کریں تو شاید کبھی ختم نہ ہوسکے۔عالمی سطح پر بدنامی کے ساتھ پاکستانی قوم طنزیہ انداز میں یہ ثابت کررہی ہے کہ ملک فوج کے پاس ہے جبکہ دیگر ممالک کے پاس فوج ہوتی ہے۔ اقوامِ عالم میں پاکستان کا وقار کم ہوسکتا ہے تاہم عجیب بات یہ ہے کہ ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ 

متعدد مرتبہ بین الاقوامی میڈیا نے طنزیہ انداز میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ پاکستان اپنے دشمن اپنے ملک کے اندر اور اپنی سرحدوں پر پیدا کرتا ہے اور ان کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرتا ہے جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔حکومت کے ٹی ایل پی سے حالیہ معاہدے سے پاکستان کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔ سوشل میڈیا پر ایک دو گروپ فوٹو دیکھنا تشویشناک ہے جس میں موجودہ آرمی چیف کچھ بدنام زمانہ تاجروں اور کراچی میں مقیم ٹی ایل پی قیادت کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ اگر یہ تصاویر جعلی نہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟

عسکری اسٹیبلشمنٹ کو ان پالیسیوں اور طریقوں پر غور کرنا ہوگا جو جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے جاری ہیں۔ ہم کب تک سرحدوں کے لیے مجاہدین و طالبان اور سرحدوں کے اندر سیاسی و مذہبی سخت گیر عناصر کی پرورش کرتے رہیں گے تاکہ سیاسی اور منتخب حکومتوں کو کنٹرول کیا جا سکے؟

سرکاری فیصلے کے تحت پابندی کے خاتمے کے بعد ٹی ایل پی ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے آزاد ہو گی۔ اس فیصلے کے سیاسی استحکام کے لیے بھی دور رس نتائج ہوں گے جو ان تمام کاوشوں کو ختم کر دیں گے جو ماضی کی حکومتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پاکستان میں انتہا پسندی کو روکنے کے لیے کی تھیں۔ دیگر تمام کالعدم تنظیموں، کالعدم جماعتوں اور گروہوں نے  اپنی اپنی سیاسی، مذہبی اور رفاہی سرگرمیوں  کی آزادی کیلئے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔ موجودہ حکومت کے تحت مستقبل کی حکومتوں کے لیے ایک بری مثال قائم ہوئی جو انتہا پسند گروہوں اور ان کی غنڈہ گردی کا شکار رہیں گی۔ 

اس فیصلے سے ابھرنے والا حتمی نتیجہ سیاسی افراتفری، بدامنی اور انتشار میں اضافہ ہے جو معاشرے کے مختلف طبقات میں مزید معاشی بدحالی اور تباہی کا باعث بنے گا۔ پاکستان میں سخت گیر افراد (ٹی ایل پی) کے دوبارہ ابھرنے سے ان تمام کوششوں کو نقصان پہنچے گا جو ملک نے  ایف اے ٹی ایف کے مشاہدات کو پورا کرنے کیلئے کی ہیں جس سے قومی مفاد کو نقصان پہنچے گا۔ 

یاد رہے کہ ٹی ایل پی کو رواں سال اپریل میں فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر حکومت کو فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہروں کے بعد اسے کالعدم تنظیم قرار دیا گیا تھا۔

2015 میں قائم ہونے والی  ٹی ایل پی نے گزشتہ برسوں میں کم از کم 6 احتجاجی مظاہرے کیے ہیں، جن میں زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف ہوئے۔ لیکن ان کے تمام احتجاج کچھ سیاسی  فوائد اور جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کے خلاف کامیابی حاصل کرنے پر خوشی کے ساتھ ختم ہوگئے۔

حکومتوں کے ساتھ ان کے تمام معاہدوں کی سہولت وردی میں ملبوس حکام نے کی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں وردی والوں کو مظاہرین میں پیسے تقسیم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس سے ریاست کے اندر ایک اور ریاست کی تعمیر کی تکلیف دہ حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ جان بوجھ کر غلطیاں کرتی رہی، اب اسے پاکستانی قوم کے بہتر اور مربوط مستقبل کیلئے اختتام پذیر ہونا ہوگا۔ 

Related Posts