افغانستان کی بدلتی فضاء

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اقوام عالم طالبان کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں، دنیا کو یہ سمجھنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے کہ افغان طالبان 1996ء سے 2001ء جیسے ہیں یا ان میں تبدیلی آئی ہے اس حوالے سے پوری دنیا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کرپائی۔

جہاں تک افغانستان میں قیام امن کا تعلق ہے تو دنیا اس کیلئے پاکستان کی کوششوں کی معترف ہے اور پاکستان جس طرح پس پردہ رہ کر کام کرتا رہا اور دنیا کو باور کرواتا رہا ہے کہ ہم صرف امن مذاکرات کے سہولت کار ہیں وہ قابل تحسین ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان 29فروری 2020ء کو دوحہ میں جو معاہدہ ہوا اسکی ابتداء 2011 دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے قیام سے ہوئی اوراب تک طالبان نے من و عن معاہدوں پر عمل کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی بھی امریکی فوجی افغان سرزمین پر بحفاظت موجود ہیں اوراگر طالبان کے وعدوں پر نظر ڈالی جائے تو دنیا طالبان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے تاہم میری رائے میں طالبان اپنے قول پر پورااترنے کی پوری کوشش کرینگے۔

اقوام عالم کے طالبان سے متعلق تحفظات کی وجہ 1996ء کی حکمت عملی ہے کیونکہ دنیا آج بھی ایسا سمجھتی ہے کہ شائد طالبان ماضی کی طرح ہیں،طالبان کی بات کی جائے تو ماضی کے برعکس افغان طالبان نے اس وقت 3 اہم نکات پر احسن انداز میں کام کیا ہے، طالبان کی پہلی ترجیح اندرونی و بیرونی سیاسی حکمت تھی جس کے تحت انہوں نے تمام افغان قبائل سے قریبی روابط قائم رکھے اور پڑوسی ممالک کو بھی شامل رائے رکھا اور جغرافیائی صورتحال کو مدنظر رکھ کا اقدامات اٹھائے جبکہ عسکری قوت کو بھی نہایت دانشمندی سے استعمال کیا ہے۔

موجودہ طالبان اور 1996ء کے طالبان کا موازنہ کیا جائے تو طالبان نے 20 سال میں دنیا دیکھی اور حالات سے سبق حاصل کیا ہے اور آج کا طالب صرف اسلحہ نہیں بلکہ تعلیم اور تربیت سے لیس ہے اور سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کررہا ہے جبکہ اگر دیکھا جائے تو ہر طالب کے پاس اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی سہولت موجود ہے جس کی وجہ سے انہیں کافی چیزوں کو سنبھالنے کے حوالے سے شعور و آگہی ملی ہے۔

اگر 29فروری کے دوحہ معاہدے کو دیکھا جائے تو طالبان نے اب تک تمام معاہدوں پر عمل کرتے نظر آرہے ہیں، اقوام متحدہ کے قوانین کے حوالے سے بھی تاحال طالبان کی جانب سے کوئی خلاف ورزی سامنے نہیں آئی اور طالبان کے رویوں میں خوشگوار تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے گوکہ ہیومن رائٹس کونسل کے سربراہ اور کئی ممالک کے سربراہان نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے خدشات کررہے ہیں۔

طالبان کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا جس کی بناء پر طالبان کو ناقابل اعتبار قرار دیا جاسکے اور اب اقوام عالم کے پاس صرف ایک ہی شبہ رہ گیا ہے کہ دیکھنا ہے کہ طالبان اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں اوریہ وسوسہ صرف دنیا ہی نہیں بلکہ افغان عوام کے ذہنوں میں بھی موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ جہازوں کے پیہوں تک میں لٹک کر فرار کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو افغان جنگ کے دوران اتحادی فورسز اور بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور ان کو ایسا لگتا ہے کہ شائد نشانے پر رکھا جاسکتا ہے لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ طالبان نے ہر مخالف کیلئے عام معافی کا اعلان کرکے خدشات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔طالبان نے اس بار دنیا کے سامنے اپنا روڈ میپ رکھ دیا ہے اور انہوں نے رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ایک سمت متعین کردی ہے۔

طالبان اس بار عالمی قوانین کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں اور تمام اہداف احسن انداز میں حاصل کررہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ طالبان کے مشیران اس بار نہایت بردباری کا مظاہرہ کررہے ہیں، افغانستان میں طالبان کی کامیابی پر پاکستان کے عوام کا ردعمل فطری ہے۔

حکومت کیلئے محتاط رویہ رکھنا ضروری ہے اور اقوام عالم کو ایسا تاثر قطعی نہیں دینا چاہیے کہ پاکستان دنیا سے الگ کھڑا ہے اور اقوام عالم کو ایسا تاثر قطعی نہیں دینا چاہیے کہ پاکستان جو چاہے افغان طالبان سے کرواسکتا ہے گوکہ یہ تاثر ماضی میں دنیا میں قائم رہا ہے لیکن اب اگر ایسا تاثر قائم ہوتا ہے تو پاکستان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

Related Posts