جامعہ کراچی کے پرچیز ڈپارٹمنٹ میں کرپشن کا نیا ریکارڈ قائم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ کراچی کے پرچیز ڈپارٹمنٹ میں کرپشن کا نیا ریکارڈ قائم
جامعہ کراچی کے پرچیز ڈپارٹمنٹ میں کرپشن کا نیا ریکارڈ قائم

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: جامعہ کراچی کے شعبہ فنانس کے بعد پرچیز آفس میں بھی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سامنے لگی ہیں، ڈائریکٹر فنانس کی جانب سے پرچیز آفس کو کھلی چھوٹ دینے اور من پسند کمپنیوں کو ان لسٹ کرانے کے بعد جعلی و بھوگس کمپنیوں نے بین الاقوامی معیار کے نام کی چیزیں بوتل گلی اور جوڑیا بازار اور کورنگی سے لیکر جامعہ کراچی کو دی جاتی ہیں جس پر پرچیز آفیسر اپنا کمیشن وصول کرتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے پرچیز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایک شعبہ کو دیئے جانے والے آلات کی لسٹ کے مطابق مغل ٹریڈرز کی جانب سے جامعہ کراچی کے پرچیز ڈپارٹمنٹ کے انچارج ارشد نے کک بیک اور بھاری بھر کم کمیشن کے حصول کے لئے کئی سو گناہ زیادہ قیمت ادا کرکے جامعہ کراچی کو نقصان پہنچایا ہے جو سلسلہ کئی بر س سے جاری ہے۔

بل کی ادائیگی کی دستاویزات کے مطابق مغل ٹریڈرز نے SIGMAکا Hexaneفی لیٹر9500روپے میں، سوڈیم سلفیٹ 6500روپے فی کلو گرام، Ferrous سلفیٹ9500روپے فی کلو گرا م اور Ammoniunسلفیٹ7500روپے کا فی کلو گرام، چارکول 500گرام 8500روپے میں، پوٹاشیم لوڈیڈ500گرام 26000ہزار روپے کا، پوٹاشیم Nitrateکے 500گرام کی قیمت 9500روپے، والیم ٹریک falskایک سو ملی لیٹر 1400روپے کے حساب سے 12ائٹمز16800روپے کے اور sinkڈرین پائپ ایک عدد 5000روپے میں، sandپیپر زیروسائز 950روپے کا ایک عدد، measuringسلینڈر50ملی لیٹر 1800روپے میں، measuringسلینڈر100mlکا2100روپے کا ایک عدد، ٹیشو پیپر کا ایک ڈبہ 2000روپے کا ایک عدد، پوٹاشیم lodideیک کلو گرام 52000ہزار روپے میں خریداگیا ہے، اسٹاپ واچ کی قیمت 6500روپے ادا کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ نیو لیب کو انٹرپرائززنامی کمپنی کو ادا کئے گئے بل کے مطابق 3سے 5روپے میں ملنے والی وارشل(آئرن کور رنگ) 3700میں خرید لیاہے،کل دو درجن یعنی 24وارشلز کے84000روپے ادا کردیئے کر دیئے ہیں یہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی کرپشن ہے۔ریٹیلر مارکیٹ میں 150روپے کا ملنے والا سینک ڈرینر پائپ جامعہ کراچی کے ڈی ایف اور پر چیز آفس نے 5000روپے میں خریدا ہے،150روپے کا پلاسٹک کا جگ جوکہ شہر میں ریڑھیوں پر بھی دستیاب ہے جامعہ کراچی کے کرتے دھرتوں نے 13ہزار روپے میں خرید لیا ہے،350روپے کی ایکسٹینشن وائر کی قیمت 4500روپے لگا ئی گئی ہے۔

اسی کمپنی سے 120لیٹر کی پلاسٹک کی پانی اسٹور کرنے والی ٹینکی جس کی مارکیٹ میں قیمت 1500سے 2000روپے ہے جامعہ کراچی کی کرپٹ انتظامیہ نے 45000ہزار روپے میں خرید لیا ہے،پوٹاشیم کلورائیڈ فی کلو 8500،روپے، سوڈیم کلورائیڈ 6500فی کلو،ایتھائیل اسیٹیت 9500کا اڑھائی لیٹر خریدا گیا ہے جس میں بھی 200فیصد کیک بیک ہے،50روپے کی بیکر نوزل کے 950روپے میں، واش بوتل 1200روپے،150روپے کا سکر 1500روپے،50روپے کا تھری پن پلگ 900روپے میں خریدا گیا۔

 

50ایم ایل کا بریٹ 5500روپے،80روپے کا گلاس راڈ 1300روپے میں لیا گیااور150روپے کا کونیکل فلاسک 1500روپے میں خریدا گیا ہے اس کے علاوہ 100روپے والا ریگ مال 950روپے میں خریدا گیا ہے۔

جامعہ کراچی کی عبوری انتظامیہ نے کرپشن کے سابقہ تمام ریکارڈ تور ڈالے ہیں،انتظامی اکیڈمک اور مالی بے قاعدگیوں کی جو مثالیں موجودہ عبوری انتظامیہ نے گزشتہ تین ماہ میں قائم کی ہے اس کی نظیر گزشتہ 70برسوں میں نہیں ملتی،خودمختار ادارہ ہونے کی وجہ سے جامعہ کراچی کا سنڈیکیٹ سب سے معتبر اور طاقتور ادارہ مانا جاتا ہے۔

اس کے فیصلوں کو جامعہ کراچی کا کوئی دوسرا ادارہ یا کمیٹی سپر سیڈ نہیں کرسکتا ہے لیکن موجودہ انتظامیہ نے سینڈیکیٹ کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرکے اپنے من پسند افراد کو نوازنے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کرنے کے علاوہ اندھا دھند کرپشن کے ذریعے جیبیں بھرنے کا انوکھا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

جامعہ کراچی کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اشیا کی خریداری پر لگ جاتا ہے،اس لیئے پرچیز آفس اور ڈائریکٹر فنانس ہمیشہ اپنے قریبی لوگوں کے نام پر مختلف اشیا کی خریداری کے لیئے کمپنیاں رجسٹرڈ کرا کے رکھتے ہیں تاکہ انہی من پسند افراد کو ٹھیکے دلا کر اپنا کیک بیک با آسانی وصول کریں،بعض اوقات تو کمپنیوں میں ان کے شئیرز ہوتے ہیں اور یہ سلیپنگ پارٹنر ہوتے ہیں کمپنی کسی اور کے نام رجسٹرڈ کرائی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ یہ ایک شعبے کی چند چیزوں کی خریداری ہے اگر جامعہ کراچی کے گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہونے والی خریداری کا ریکارڈ حاصل کیاجائے تو کروڑوں روپے کا خرد برد سامنے آجائے گا، ا س خریداری کی منظوری تمام اہم ذمہ داروں سے لی گئی ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ قائم مقام وائس چانسلر،ناصرہ خاتون،ڈائریکٹر فائنانس طارق کلیم، اس کا پی اے کاشف،پرچیز آفیسر ارشد اور پرچیز آفس کا اہلکار مجیب اس میں فیض یاب ہونے والوں میں شامل ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام آئٹمز پر ہزاروں گنا زائد قیمت ظاہر کر کے کمیشن ہڑپ کر لیا گیا ہے،عقل دھنگ کر جانے والی کرپشن کی اس داستاں میں ایسی ایسی چیزیں سامنے آئی ہیں کہ گلی محلے کے آوارہ بچے بھی ایسی چوریاں نہیں کرتے ہوں گے،جس طرح کرپٹ افسران کے اس گینگ نے عام مارکیٹ سے ملنے والے سامان کی قیمت سے کئی ہزار گناہ زیادہ قیمتیں ادا کرکے چیزیں خریدی ہیں۔

ادھر معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کے مستقل وائس چانسلر کے لئے سرچ کمیٹی کے بعد کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی شارٹ لسٹڈ امیدواروں کے انٹرویوز مکمل کرنے کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا کر اب تک مستقل وائس چانسلر کی تقرری کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا ہے۔

Related Posts