اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی زلزلہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل میں ایک غیر معمولی سیاسی و سیکورٹی بحران ابھر آیا ہے۔ داخلی سیکورٹی کے خفیہ ادارے شاباک (شین بیٹ) کے سربراہ رونین بار نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی تحریری گواہی میں انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے ادارے کو اپنی ذاتی اور عدالتی جنگوں میں استعمال کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔
اسرائیلی اخبار ہارٹز کے معروف کالم نگار یوسی فیرتر نے رونین بار کی گواہی کو “اسرائیل کی تاریخ کا سب سے خطرناک پینڈورا بکس” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک ایسا انکشاف ہے جو اسرائیلی جمہوریت اور اداروں کی نزاكت کو ظاہر کرتا ہے۔ نتن یاہو کو ریاستی اداروں کی نجی وفاداری حاصل کرنے کی کوشش کا مرتکب ٹھہراتا ہے، قانون، عدلیہ اور شاباک جیسے حساس اداروں کے ساتھ کھیلنے کا خطرناک رجحان بے نقاب کرتا ہے۔
گواہی کا پس منظر:
رونین بار نے یہ گواہی اپنی برطرفی کے خلاف مقدمے میں دی ہے۔ گواہی میں دعویٰ کیا ہے کہ نتن یاہو نے شاباک سے مطالبہ کیا کہ وہ عدالتی کارروائیوں میں اس کی مدد کرے۔ نتن یاہو پر پہلے سے ہی کرپشن، رشوت اور بد عنوانی کے کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔
ہارٹز کے تبصرے کی جھلک:
“نتن یاہو ریاست کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن چکے ہیں اور یہ گواہی اسرائیل کی بقیہ سیاسی شفافیت کے لیے براہِ راست خطرہ ہے”۔
ممکنہ اثرات:
عدالتی فیصلے میں رونین بار کی برطرفی واپس لی جا سکتی ہے۔ نتن یاہو کے خلاف عوامی اعتماد میں کمی اور احتجاجی تحریک کی نئی اور طاقتور لہر ابھرنے کا امکان ہے۔ جبکہ اپوزیشن کو سیاسی طور پر مضبوط موقف حاصل ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کے اندر ایک ممکنہ ادارہ جاتی بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔ جس کے آثار واضح ہیں۔
اسرائیلی نظام پر لرزہ طاری:
ہآرتس کے ممتاز تجزیہ نگار یوسی فیرتر کہتے ہیں کہ اسرائیلی خفیہ ادارے شاباک کے سربراہ رونین بار کی حالیہ تحریری گواہی صرف “اداروں کا ایک تنازع” نہیں ہے، بلکہ وہ اسے ایک “کھلا ہوا خوفناک اعلان” قرار دیتے ہیں، ایک ایسا انتباہ جو اسرائیل کے سیاسی اور سیکورٹی نظام کے ممکنہ انہدام کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
“گینگ لیڈر” طرزِ حکومت؟
فیرتر کے مطابق، رونین بار کی گواہی سے جو تصویر ابھرتی ہے، وہ وزیرِ اعظم نتن یاہو کو ایک مجرمانہ گینگ کے سربراہ کے طور پر پیش کرتی ہے، جو اپنی عدالتی مشکلات سے بچنے کے لیے ریاستی اداروں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، اپنے سیاسی مخالفین کی آوازیں دبانے کے لیے سیکورٹی اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں، عدالتی مقدموں سے براءت حاصل کرنے کے لیے غیر آئینی راستے اپنانا چاہتے ہیں۔ اس سے ایک مجرمانہ اور گینگ مافیا والی ذہنیت ظاہر ہوتی ہے۔ رونین بار کی گواہی ایک قانونی دستاویز ہے، نہ کہ کوئی سیاسی بیان۔ یہ کوئی میڈیا انٹرویو یا لیک آڈیو نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ میں پیش کر دہ ایک سرکاری شہادت ہے۔ اس دستاویز کی طوالت 31 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں خفیہ مواد اور بعض حساس سیکورٹی دستاویزات موجود ہیں۔ رونین بار نے اپنی گواہی میں دعویٰ کیا کہ اس نے نتن یاہو کی طرف سے غیر قانونی احکامات کے بعد نوٹسز اور یادداشتیں محفوظ کیں۔
قطر سے روابط اور سیاسی دھچکا:
فیرتر نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ نتن یاہو نے بعض قریبی ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی، جو مبینہ طور پر قطر سے مشکوک تعلقات رکھتے ہیں، وہی قطر جس پر حماس کو فنڈنگ کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ یہ بات اسرائیل کے لیے نہ صرف سیاسی بلکہ سیکورٹی لحاظ سے بھی خطرناک ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب غزہ میں جنگ جاری ہے اور داخلی سیاسی دراڑیں گہری ہو رہی ہیں۔
اسرائیلی نظام فیصلہ کن موڑ پر:
فیرتر کے مطابق، یہ شہادت اسرائیلی جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ اگر عدالت نے اس دستاویز کو سنجیدگی سے لیا، تو نتن یاہو کی سیاسی بقاء کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی عوام، عدلیہ اور اپوزیشن کے لیے یہ ایک پکار ہے، جاگنے کی، بولنے کی اور اقدام کرنے کی۔
اسرائیل کا سب سے بڑا سیاسی زلزلہ:
اسرائیلی سیاست اور سیکورٹی اداروں کے درمیان کشیدگی ایک نئے اور فیصلہ کن موڑ پر آچکی ہے، جب شاباک (اسرائیلی خفیہ ادارہ) کے سربراہ رونین بار نے اپنی تحریری گواہی میں انکشاف کیا کہ وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے انہیں بند دروازوں کے پیچھے حساس اور غیر قانونی احکامات دیئے۔ صحافی یوسی فیرتر لکھتے ہیں: “نتن یاہو رونین بار کو اکثر بند دروازوں کے پیچھے ملاقات کے لیے بلاتے اور ملاقات سے قبل اپنے تمام مشیروں، سیکریٹریز اور یہاں تک کہ پرسنل سیکریٹری کو بھی باہر نکال دیتے تھے، گویا ایک لمحے میں وزیر اعظم ایک خفیہ ڈکٹیٹر میں بدل جاتا تھا، جو سیکورٹی معاملات کو پردے میں چلاتا ہے۔” فیرتر کے مطابق یہ گواہی اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی زلزلہ اور یہ انکشاف سیاسی قیادت اور سیکورٹی اداروں کے درمیان اعتماد کے مکمل انہدام کی علامت ہے۔ نتن یاہو نے یہ غط گمان کیا تھا کہ برطرف کرنے پر رونین بار خاموشی سے چلے جائیں گے، لیکن ان کی عدالت میں علانیہ شہادت نے تمام حسابات الٹ دیئے۔
نتن یاہو کا جوابی حملہ:
نتن یاہو نے اپنے مخصوص انداز میں رونین بار کی گواہی کو صرف “جھوٹ کا پلندہ” قرار دیا ہے اور اپنے حامی میڈیا اور سیاسی اتحادیوں کو متحرک کر کے جوابی مہم شروع کی ہے۔ یاہو نے الزام لگایا ہے کہ یہ سب “سیاسی سازش” ہے، جو سرکاری قانونی مشیر کی سربراہی میں چلائی جا رہی ہے تاکہ انہیں اقتدار سے ہٹایا جا سکے۔ نتن یاہو کے حامی یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ شاباک نے 1993 کے اوسلو مظاہروں کے دوران اسرائیلی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا، تو اب عدالتی اصلاحات کے خلاف مظاہرین پر بھی وہی پالیسی کیوں نہیں؟ فیرتر اس دلیل کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہیں، کیونکہ اوسلو مظاہروں میں سیاسی تشدد کا حقیقی خطرہ تھا، اس کا انجام 1995 میں وزیرِ اعظم اسحاق رابین کے قتل کی صورت میں ہوا، جبکہ موجودہ احتجاج پرامن، جمہوری اور “قریباً مثالی” ہے۔ تجزیہ نگار یوسی فیرتر کے مطابق، نیتن یاہو کی موجودہ جوابی مہم کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان کی دیرینہ حکمت عملی کا تسلسل ہے، وہ ہر قانونی یا سیاسی چیلنج کو “ریاستِ عمیقہ” (Deep State) کی طرف سے سازش قرار دے کر پیش کرتے ہیں۔
عوامی ردعمل:
رونین بار کی شہادت کے بعد تل ابیب سمیت مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے حکومت پر تنقید کی کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے بجائے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔
سازشی بیانیہ:
نیتن یاہو عدلیہ، میڈیا اور سیکورٹی اداروں کو اپنے خلاف سازش میں ملوث قرار دیتے ہیں۔ ہر قانونی مقدمے کو سیاسی شکار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ حقیقی احتساب سے بچنے کے لیے قومی اداروں کو متنازع بنا دیتے ہیں۔ فیرتر یاد دلاتے ہیں کہ سابقہ شاباک سربراہان یورام کوہن اور نداف ارگمان بھی سیاسی دباؤ کا شکار رہے، مگر انہوں نے خاموشی کو ترجیح دی، لیکن رونین بار نے پہلی بار علانیہ انکار کیا، اسے ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے بار نے خاموشی توڑ کر ریاست کی سالمیت کا دفاع کیا، نہ کہ کسی سیاسی فریق کا۔ بہرحال رونین بار کی گواہی نے نیتن یاہو کے بیانیے کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ اب اسرائیلی عوام اور اداروں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ جمہوری شفافیت کا ساتھ دیتے ہیں یا سیاسی اقتدار کی خاطر ادارہ جاتی تباہی کو قبول کرتے ہیں۔
اسرائیلی نظامِ حکومت پر آخری ضرب؟
رونین بار کی شہادت ایک قانونی یا سیکورٹی مسئلہ نہیں، بلکہ آئینی اور جمہوری بحران کی گھنٹی ہے اور تجزیہ نگار یوسی فیرتر کے مطابق، اب وقت آ گیا ہے کہ محض اخلاقی مطالبات سے آگے بڑھ کر فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے۔ فیرتر کے مطابق رونین بار کی شہادت دراصل عدلیہ پر حملے کی نئی شکل ہے، یعنی “عدالتی بغاوت” (Judicial Coup) کو جاری رکھنے کی ایک اور صورت۔ نتن یاہو عدالت، میڈیا اور سیکورٹی اداروں کو اپنے ذاتی اقتدار کی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اب جبکہ شاباک جیسے ادارے سے انکار آ چکا ہے، تو معاملہ سنگین سے سنگین تر ہو چکا ہے۔ فیرتر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قانونی ادارے اور سپریم کورٹ اگر واقعی اپنے کردار میں سنجیدہ ہیں، تو انہیں اب تحقیقات کا حکم دینا ہوگا، بار کی 31 صفحات پر مشتمل شہادت میں موجود شواہد کو عدالتی طریقے سے پرکھنا ہوگا۔
نیتن یاہو ایک بدنما داغ:
فیرتر کا اختتامی پیغام انتہائی سخت ہے، وہ لکھتے ہیں کہ یہ شہادت صرف ایک انتباہ نہیں، بلکہ ثبوت ہے کہ نتن یاہو صرف خطرہ نہیں، بلکہ خود اسرائیلی جمہوریت پر حملہ بن چکا ہے۔ وہ اب صرف عدالتی ملزم نہیں، بلکہ جمہوریت کے ڈھانچے، ادارہ جاتی شفافیت اور ریاستی اصولوں کے لیے خطرہ ہیں۔ فیرتر یاہو کو “متحرک عار” (Moving Stain) قرار دیتے ہیں، یعنی ایسا داغ جو جہاں جائے، اپنی علامت چھوڑتا ہے۔
آزمائش کا لمحہ:
فیرتر کے بقول یہ لمحہ اسرائیل کے لیے نظریاتی امتحان ہے کہ آیا ریاستی ادارے قانون کی بالادستی کو بچائیں گے؟ یا سیاسی خوف اور مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کریں گے؟ بہرحال اب فیصلہ کرنا ہوگا۔ پھر ہر فیصلے کا انجام بھی سب بخوبی جانتے ہیں۔

Related Posts