کونسا مسلم ملک کس طرح اسرائیل کی مدد کر رہا ہے؟ (دوسرا اور آخری حصہ)

کالمز

533 ملین ڈالر کی تعمیراتی مصنوعات:
غزہ کی جنگ کے دوران عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو برآمد کی جانے والی تعمیراتی مصنوعات اس دو طرفہ تجارت کا حصہ ہیں۔ ان مصنوعات کی مجموعی برآمدی مالیت 533 ملین ڈالر تھی اور ان میں سیمنٹ، چونا (لائم)، گِپسم (پلستر) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ اشیاء تعمیراتی مواد کے زمرے میں رکھی گئیں، جس میں دیگر تعمیراتی مواد جیسے لوہا اور ایلومینیم بھی شامل ہیں۔ یہ ڈیٹا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عرب ممالک نے اسرائیل کو اہم تعمیراتی مواد فراہم کیا، جس کا اسرائیل نے جنگ کے دوران فائدہ اٹھایا۔
تعمیراتی مواد اور دیگر مصنوعات کی برآمدات

دیگر اہم برآمدات:
• کپڑے اور ملبوسات، برآمدی مالیت 152.3 ملین ڈالر
• غذائی اشیاء اور مشروبات، برآمدی مالیت 369.2 ملین ڈالر
• زرعی کھادیں (Fertilizers)، برآمدی مالیت 52.6 ملین ڈالر
• ادویات (فارماسوٹیکلز)، برآمدی مالیت 1.5 ملین ڈالر

ان آفیشل اعداد و شمار میں اسرائیل کی خارجی تجارت کا ماہانہ ریکارڈ شامل بھی ہے، جس میں وہ مصنوعات بھی شامل ہیں، جو اسرائیل نے درآمد کیں اور وہ مصنوعات بھی جو اسرائیل نے دنیا کے دیگر ممالک کو برآمد کیں۔

مصنوعات کے کوڈز:
یہ ڈیٹا اسرائیل کی کسٹمز کے ذریعے استعمال ہونے والی مصنوعات کے کوڈز پر مبنی ہے، جو عالمی کسٹمز تنظیم (WCO) کے ذریعے وضع کردہ یکساں ٹیرف سسٹم سے حاصل کیا گیا ہے۔

ہارس کوڈ (HS Code):
اس نظام کو “ہارس کوڈ” یا “ہم آہنگ سسٹم” کہا جاتا ہے، جس میں تمام مصنوعات کے گروپ کو چھ ہندسوں والے کوڈ کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ اس سسٹم میں 5000 سے زائد گروپوں کی مصنوعات شامل ہیں۔ یہ کوڈ عالمی سطح پر ایک معیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور ہر ملک اپنے مخصوص تفصیلی کوڈز میں اضافے کر سکتا ہے، لیکن یہ بنیادی طور پر مصنوعات کی نوعیت کو تبدیل نہیں کرتا۔

“عرب المسخار” کی تحقیق میں انہی HS Codes کا استعمال کیا گیا تاکہ درست اور واضح طور پر ان مصنوعات کی شناخت کیا جاسکے جو عرب ممالک نے اسرائیل کو برآمد یا اس سے درآمد کیں۔ HS Code ایک عالمی سسٹم ہے جس کے تحت 200 سے زاید ممالک اور معیشتوں کی عالمی تجارت میں 98 سے زیادہ اشیاء کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔

مصنوعات کے شناختی کوڈز:
ڈیٹا کا استعمال: تحقیق میں، اسرائیل کے کسٹمز اور عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کی ڈیٹا بیس کا استعمال کیا گیا۔ اس کے ذریعے، ہر HS Code کو الگ سے تلاش کیا گیا تاکہ ہر کوڈ کے ساتھ جڑی مصنوعات کی تفصیل اور ان کی برآمدات و درآمدات کی مالیت معلوم کی جا سکے۔ مثلاً، جب کوڈ (0710220000) کو اسرائیل کی کسٹمز ویب سائٹ پر تلاش کیا گیا، تو اس نے بتایا کہ یہ کوڈ “سبزیوں” کے لیے مخصوص ہے اور خاص طور پر فاصولیا (بیچوں) کی برآمد و درآمد کی تفصیل فراہم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے ان مصنوعات کی مالیت حاصل کی گئی، جو اسرائیل کو برآمد اور اس سے درآمد کی گئیں۔ یہ طریقہ کار ایک درست اور تفصیلی تجارت کی تصویر فراہم کرتا ہے، جس سے آپ جان سکتے ہیں کہ کس قسم کی اور کتنی مالیت کی مصنوعات عرب ممالک نے اسرائیل کو برآمد اور اس سے درآمد کیں۔

جنگ کے دوران تجارت میں اضافہ؟
“عربی بوست” کی تحقیق کے مطابق، اسرائیل کے مرکزی اعداد و شمار کے حوالے سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ کے دوران عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات میں اضافہ کیا۔

مجموعی تجارتی حجم:
اکتوبر 2023 سے فروری 2025 تک، عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان مجموعی تجارتی حجم 6.1 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو برآمدات کی مالیت 4.57 بلین ڈالر رہی۔ جبکہ اسی دوران، اسرائیل کی طرف سے عرب ممالک کو کی جانے والی درآمدات کی مالیت 1.57 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ گویا جنگ کے باوجود عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات مزید مستحکم ہوتے رہے اور دوطرفہ تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اسرائیل کے ساتھ تجارت کرنے والے عرب ممالک میں متحدہ عرب امارات کا حصہ تقریباً دو تہائی حجم تک پہنچ گیا۔ بلکہ امارات کا تجارتی حجم دیگر تمام ممالک کے مجموعی تجارتی حجم سے زیادہ رہا۔

اکتوبر 2023 سے فروری 2025 تک، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان 4.3 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی۔ باقی چاروں عرب ممالک کا تجارتی حجم اس سے رہا۔ تجارتی حجم کے لحاظ سے ترتیب یوں رہی: متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، مراکش اور بحرین۔ 2022ء کے مقابلے میں غزہ جنگ کے ابتدائی 14 ماہ کے دوران، عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تجارتی حجم میں تقریباً نصف ارب ڈالر (12 فیصد) کا اضافہ ہوا۔ اکتوبر 2023 سے نومبر 2024 تک 5.13 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی، جبکہ اکتوبر 2022 سے نومبر 2023 تک4.56 بلین ڈالر کا لین دین ہوا تھا۔ گویا غزہ کی نسل کشی نے عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تجارت پر مثبت اثرات مرتب کئے۔ حالانکہ عرب عوام میں اسرائیل کے ساتھ تجارت کے حوالے سے غم و غصہ پایا جاتا ہے اور بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی جاتی ہے۔

خفیہ معلومات:
عموماً، عرب ممالک اپنی اسرائیل کے ساتھ تجارت کی تفصیلات کو ظاہر نہیں کرتے اور اس پر پابندی عائد کی جاتی ہے، کیونکہ یہ معاملہ عوام کے لیے بہت حساس ہے۔ تاہم، اسرائیل اپنے تجارتی اعداد و شمار اور تفصیلات کو پبلک کرتا ہے، جس سے اس کی تجارت کا حجم عرب ممالک اور دنیا کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بحرین نے غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت کو تقریباً 9 گنا بڑھا دیا۔ چنانچہ بحرین نے اکتوبر 2023 سے فروری 2025 کے دوران اسرائیل کو 65 مختلف مصنوعات برآمد کیں۔ جن میں 26 مرکزی مصنوعات شامل ہیں۔

ان مصنوعات میں سب سے بڑی تعداد نسیج کی مصنوعات کی تھی، جن کی برآمدات کی مالیت 3.5 ملین ڈالر تھی۔ دوسرے نمبر پر ایلومینیم اور اس کی مصنوعات ہیں، جن کی مالیت 2.9 ملین ڈالر رہی۔ بحرین دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ایلومینیم پگھلانے والا ملک ہے اور عالمی سطح پر 2 فیصد ایلومینیم پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد مقناطیس اور فولاد کی مصنوعات آتی ہیں، جو تعمیرات میں استعمال ہوتی ہیں۔ بحرین نے اسرائیل کو غذائی مصنوعات بھی برآمد کیں، جن میں گندم، آٹا، نشاستہ اور دودھ شامل ہیں۔ بحرین نے اکتوبر 2023 سے فروری 2025 کے دوران 9.2 ملین ڈالر مالیت کی مصنوعات اسرائیل کو برآمد کیں۔ اس عرصے کے دوران کچھ مہینوں میں اس نے اپنی برآمدات کو دگنا کر دیا۔ جولائی 2024 میں سب سے زیادہ برآمدات ہوئیں، جو 33.4 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اس کے بعد اکتوبر 2023 میں بھی بحرین نے اسرائیل کو 1.2 ملین ڈالر کی برآمدات کیں۔ اس کے مقابلے میں، اسرائیل کی بحرین کو برآمدات (مجموعی طور پر) 8.7 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں، جو کہ اکتوبر 2023 سے فروری 2025 کے درمیان تھیں، جبکہ اکتوبر 2022 سے اکتوبر 2023 کے درمیان یہ صرف 3.4 ملین ڈالر تھیں۔ اس طرح، بحرین کی اسرائیل سے درآمدات میں غزہ کی جنگ کے دوران دگنا اضافہ دیکھنے کو ملا اور اگست 2024 میں اسرائیل سے بحرین کو برآمدات کا سب سے زیادہ ریکارڈ قائم ہوا، جو 3.4 ملین ڈالر تھا۔ حالانکہ بحرین اسرائیل سے تجارت کرنے والے عرب ممالک میں آخری نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں پہلے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے۔

اکتوبر 2023 سے فروری 2025 تک اس نے 1377 مختلف مصنوعات اسرائیل کو برآمد کیں۔ یہاں مصنوعات سے مراد تمام درآمدی وبرآمدی اشیاء ہیں، جیسے سبزیاں اور پھل۔ امارات کی یہ 1377 مصنوعات 81 مختلف بڑی پروڈکٹس کے تحت آتی ہیں۔ سب سے زیادہ برآمد ہونے والی اماراتی مصنوعات میں زیورات اور آرٹ کے ٹکڑے شامل ہیں، اس کے بعد صنعتی مشینری اور آلات اور پھر دھاتیں اور خام مال شامل ہیں۔ ڈیٹا کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو 584.9 ملین ڈالر مالیت کے موتی، قیمتی پتھر، زیورات اور آرٹ کی اشیاء برآمد کیں۔ قدرتی اور مصنوعی موتی اور قیمتی پتھر متحدہ عرب امارات کی سب سے اہم برآمدات میں شامل ہیں۔ نومبر 2024 میں، اسرائیلی مرکز برائے مسابقت و اعداد و شمار نے اطلاع دی تھی کہ متحدہ عرب امارات کی موتی اور قیمتی پتھروں کی تجارت گزشتہ سال کے پہلے سہ ماہی میں تقریباً 255 ارب ڈالر تک پہنچی تھی۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو زراعت اور باغبانی کے کاموں میں استعمال ہونے والی کھاد بھی 25.3 ملین ڈالر مالیت میں برآمد کی اور 10 ملین ڈالر مالیت کی مختلف غذائی اشیا بشمول سبزیاں، پھل، مشروبات، اس کے علاوہ سیمنٹ، نمک، گندھک، جپسم، چونا، ادویات، کھیلوں کا سامان اور ملبوسات بھی برآمد کیے۔

اسرائیلی سرکاری ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ امارات کی مقامی طور پر تیار شدہ مصنوعات کی اسرائیل کو برآمدات میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا اور غزہ جنگ کے دوران یہ 1.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ جبکہ جنگ سے قبل اس کی سطح 32.6 ملین ڈالر تھی۔ یوں جنگ کے دوران اسرائیل کو اماراتی برآمدات میں 4.5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب غزہ جنگ کے دوران، اسرائیل نے امارات کو اپنی تیار کردہ 763 مختلف مصنوعات برآمد کیں۔ یہ مصنوعات 70 مختلف اقسام میں شامل ہیں، جن کی مالیت 737 ملین ڈالر تھی۔ امارات نے اسرائیل کے ساتھ تجارت میں سب سے بڑا حصہ ڈالا ہے، جو کل تجارتی سرگرمیوں کا تقریباً تین تہائی حصہ ہے۔ دونوں دوست ممالک کے مابین دوطرفہ تجارت کا مجموعی حجم اکتوبر 2023 سے فروری 2025 کے دوران 4.3 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ حالانکہ غزہ جنگ کے قبل 2020 میں، یہ حجم صرف 189.8 ملین ڈالر تھا۔ پھر2021 میں، 1.221 ارب ڈالر تک پہنچا۔ 2022 میں، بڑھ کر 2.527 ارب ڈالر ہوگیا۔ 2023 میں، 2.9 ارب ڈالر رہا اور اکتوبر 2023 سے فروری 2025 تک، جنگ کے دوران 4.3 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کو برآمدات کا حجم 3.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس عرصے میں، بلند ترین سطح اکتوبر 2024 میں رہی، جب ان کی مالیت 296.3 ملین ڈالر رہی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امارات اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات میں نہایت مثبت تبدیلیاں آئیں۔ گویا فلسطینیوں کے قتل عام کا بازار جتنا گرم ہوتا رہا، اس کے ساتھ ساتھ امارات اور اسرائیل کی تجارتی سرگرمیاں بھی بڑھتی رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کونسا مسلم ملک کس طرح اسرائیل کی مدد کر رہا ہے؟ (پہلا حصہ)