عید الفصح اور مسجد اقصیٰ کی بقا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Operation Sindoor Was Not a Mistake but a Blunder: Indian Defence Analyst Pravin Sawhney

یہودیوں کا سب سے مقدس سالانہ تہوار پیر 12 اپریل سے شروع ہوکر جمعرات 18 اپریل کو اختتام پذیر ہوگیا۔ عید الفصح یا پیسح نامی اس تہوار کو انگریزی میں پاس اوور کہا جاتا ہے۔

یہ تہوار یہود کے ساتھ عیسائی بھی مناتے ہیں۔ اگرچہ ان کے طریقے اور رسومات مختلف ہوتی ہیں لیکن اس کا مرکزی مطلب “نجات” اور “عبور” ہے۔ یہودی اس تہوار کو مصر میں فرعون کی غلامی سے نجات کی یاد میں مناتے ہیں، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر سمندر پار کیا جبکہ فرعونی ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔

یہ تہوار عبرانی تقویم کے مطابق نسان کے مہینے کے وسط میں منایا جاتا ہے، جب بہار کا موسم اور پورا چاند ہوتا ہے۔ اس عید کی مدت سات یا آٹھ دن ہوتی ہے۔ ان دنوں خمیری روٹی کھانے پر پابندی ہوتی ہے اور صرف “فطیر” (بغیر خمیر کے روٹی) کھائی جاتی ہے۔

عید سے پہلے خمیری کھانوں کو جلا دیا جاتا ہے۔ عید کی رات کو “لیل ہسیدر” کہا جاتا ہے، جب یہودی خاندان ایک ساتھ کھانے پر جمع ہوتا ہے اور “ہگدا” نامی کتاب سے دعا اور ترانے پڑھے جاتے ہیں، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے نجات کی کہانی سناتے ہیں۔

یہودی اپنا دروازہ حضرت الیاسؑ کے لیے کھولتے ہیں تاکہ وہ آئیں اور گھر کو برکت دیں جبکہ عیسائی اس دن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت (نعوذ باللہ) کے تین دن بعد قیامت (دوبارہ زندہ ہونے) کی یاد میں مناتے ہیں جیسا کہ بائبل کے نئے عہدنامے میں بیان کیا گیا ہے۔ اسے “احدِ قیامت” یا “بڑا تہوار” بھی کہا جاتا ہے۔

اس سے پہلے چالیس دن کا روزہ رکھا جاتا ہے، اس دوران مسیحی گوشت اور اس کی مصنوعات سے پرہیز کرتے ہیں اور خیرات دی جاتی ہے۔ یہ عید بھی موسم بہار کے پورے چاند کے بعد پہلے اتوار کو منائی جاتی ہے۔

اس عید کے دن چرچ میں خاص عبادات کی جاتی ہیں، خاندان والے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، اکٹھے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں اور گھروں کو بہار کی علامتوں سے سجایا جاتا ہے، جیسے رنگ برنگے انڈے، چاکلیٹ، چوزے اور خرگوش کی اشکال وغیرہ۔

عید الفصح پر یہودی آبادکار مسجد اقصیٰ کو خصوصی طور پر نشانہ بناتے ہیں۔ بڑی بڑی ٹولیوں کی شکل میں قبلہ اول میں گھس کر مختلف رسومات ادا کرتے ہیں۔ اس بار حرم قدسی کے احاطے میں صہیونیوں نے اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کے ساتھ میوزیکل کنسرٹ کا بھی انعقاد کیا۔

مسجد اقصیٰ کے قریب بلند آواز میں گانے بجا کر حرم قدسی کے ماحول کو مکدر اور مقامی فلسطینی باشندوں کا خون جلاتے رہے۔ انہیں ہمیشہ سیکورٹی اہلکاروں کی فول پروف حفاظتی چھتری میسر ہوتی ہے۔

عید فصح کی آمد کے ساتھ مسجد اقصیٰ مبارک کو لاحق خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔ انتہاپسند ٹیمپل گروپس نے پہلے سے ایک بڑے پیمانے پر دراندازی کے پروگرام کا اعلان کیا تھا۔

چنانچہ عید کے ساتوں دن ایسا ہی ہوتا رہا۔ اسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سیکورٹی میں روزانہ سینکڑوں انتہا پسند آباد کار مسلسل صبح مسجد اقصیٰ کے احاطے پر دھاوا بولتے رہے۔ یہودی آباد کار گروہوں کی شکل میں مسجد میں داخل ہوتے ہیں، صحنوں میں رقص جیسی اشتعال انگیز سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔

ان دھاووں کے دوران مقدس مقام کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور بعض آبادکار تلمودی رسومات بھی ادا کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ حسب سابق اس بار بھی یہ اقدامات فلسطینیوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچانے اور علاقے میں کشیدگی کو ہوا دینے کا باعث بنے۔ دوسری جانب قابض فوج نے عید فصح کی آڑ میں مسجد اقصیٰ اور پرانے بیت المقدس کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے۔

عید فصح کے پہلے ہی روز صبح، 1149 آباد کاروں نے یکے بعد دیگرے گروہوں کل شکل میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا۔ قابض صہیونی پولیس اور فوجی دستے ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں تعینات کیے گئے تھے، جو انہیں مکمل سیکورٹی فراہم کر رہے تھے۔

پھر ہفتے کی شام یہودیوں نے اپنی مذہبی رسومات کے مطابق ”بائبلیکل فصح” شروع کیا۔ اس تہوار کو بائبل کی تین اہم یہودی تعطیلات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ مسجد اقصیٰ کے لیے سب سے زیادہ خطرناک سمجھی جاتی ہے، عید الفصح کے موقع پر ٹیمپل گروپس ہر سال مسجد اقصیٰ کے اندر بھیڑ کی قربانی کی کوشش کرتے ہیں۔

اس بار بھی متعدد جنونی صہیونی بھیڑ مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ القدس کے محقق زیاد ابحیص کے مطابق یہ دراندازی صرف مذہبی یا سیاحتی دوروں کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، بلکہ یہ ایک واضح منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی مذہبی خودمختاری کو مسلط کرنا، اسے بتدریج ایک بائبلی عبادت گاہ میں تبدیل کرنا اور اس کی تاریخی اور قانونی حیثیت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنا ہے۔

اس پروگرام کا آغاز پیر کو ایک معروف مذہبی شخصیت، ٹیمپل ماؤنٹ ان آور ہینڈز تنظیم کے بانی ٹومی نیسانی کی قیادت میں چھاپے سے ہوا، جو روزانہ مسجد اقصیٰ پر چھاپوں پر اکسانے اور مبینہ “تیسرے ہیکل سلیمانی” کی تعمیر کا مطالبہ کرنے میں سرگرم ہے۔ نیسانی اپنی پرتشدد بیان بازی اور مسجد اقصیٰ کی اسلامی حقیقت کو زبردستی تبدیل کرنے پر اکسانے کے لیے جانا جاتا ہے۔

یہ دھاوے 15 اپریل بروز منگل پروفیسر ڈین بٹ کی شرکت کے ساتھ جاری رہے، جو بائبل کا ماہر آثار قدیمہ ہے اور القدس کے تاریخی بیانیے کو اسلامی اور مسیحی نوادرات کو بائبل کے افسانوں کے ساتھ جوڑ کر مسخ کرنے کا کام کرتا ہے۔

اسی دن انتہا پسند میڈیا کارکن آرنون سیگل جو مسجد اقصیٰ کے اندر “بائبل کی قربان گاہ” کے قیام کی کھل کر تشہیر کرتا ہے اور اپنے شدت پسند پوسٹروں کے لیے جانا جاتا ہے، وہ آبادکاروں کے ایک بڑے جھتے کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا۔

اس کے ساتھ انتہا پسند وزیر ایتمار بین گویر کو بھی مسجد کے صحنوں میں “قربانی کا نذرانہ” رکھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایتمار میوزیکل کنسرٹ کے انعقاد میں پیش پیش رہا۔ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسے گانا گاتے اور رقص کرتے ہوئے ان ویڈیوز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں۔

پھر بدھ کے روز دھاووں کے ساتھ آنے والی شخصیت صہیونی مستشرق موردچائی کیدار تھی، جو عرب اور اسرائیلی حلقوں میں یکساں طور پر سب سے زیادہ متنازعہ شخصیات میں سے ایک ہے۔ یہ پروگرام 18 اپریل کو موشے فیگلن کی قیادت میں ایک چھاپے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جو اپنے انتہا پسندانہ خیالات کے لیے مشہور ربی، شناخت پارٹی کا لیڈر اور کنیسٹ کا سابق ڈپٹی اسپیکر ہے۔

فیگلن بائبل کے نمونے متعارف کروا کر اور عوامی سطح پر رسومات ادا کر کے الاقصیٰ کے اندر ایک نئی حقیقت مسلط کرنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسجد کے اندر اپنی موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، جس کا مقصد دھاوا بولنے آباد کاروں کے ایک سے زیادہ گروپ کے ساتھ جانا ہے۔

ایک پریس بیان میں ابحیص نے زور دے کر کہا کہ اس پروگرام کا مقصد نہ صرف عید فصح کے دوران مسجد میں گھسنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے، بلکہ مسجد کے اندر ان کی علامتی اور اخلاقی موجودگی کو مضبوط کرنا ہے، اسے اجتماعی شعور کی سطح پر مذاہب کی مشترکہ جگہ میں تبدیل کرنا ہے، حالانکہ اس کی تاریخی اور مذہبی نوعیت خالصتاً اسلامی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ مسجد اقصیٰ کی قانونی اور تاریخی حقیقت کو تبدیل کرنے کی وسیع تر اسرائیلی حکمت عملی کا حصہ ہے، جو بین الاقوامی قراردادوں بالخصوص یونیسکو کی قرارداد کی براہِ راست خلاف ورزی ہے، جس نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ الاقصیٰ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اس خطرناک کشیدگی کے پیش نظر مقبوضہ بیت المقدس کے لوگ مسجد الاقصیٰ کے دفاع میں پیش پیش ہیں۔

اگرچہ وہ نہتے ہیں، لیکن پھر بھی عید فصح کے دوران قبلہ اول کے صحنوں میں جمع ہو کر اس کی حفاظت کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلم ممالک کی معنی خیز خاموشی اور بے حسی یہودیوں کی مزید تقویت کا باعث بن رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کے دو ارب مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ کو یہودی عبادت گاہ بننے کا انتظار کرنا چاہئے؟ یا اب وقت آگیا ہے کہ ایک حقیقی اسلامی تحریک اس مسلسل خطرے کا سدباب کرے اور قبلہ اول اور حرمین شریفین کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

اس بار عید فصح کے آغاز سے آخر تک مجموعی طور پر 5000 سے زائد انتہا پسند یہودی آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں داخل ہو کر قبلۂ اول کی بے حرمتی کی۔ ان دراندازیوں کے دوران اسرائیلی افواج نے مسجد اقصیٰ کے دروازے فلسطینی نمازیوں پر بند کر دیئے اور انہیں عبادت سے روک دیا۔ اسی دوران مقبوضہ مغربی کنارے کے کئی علاقوں میں آبادکاروں نے اشتعال انگیز عرب مخالف مارچ کیے۔

القدس میں اسلامی اوقاف کے ترجمان فراس الدبس نے مونٹ کارلو انٹرنیشنل ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا: “آج مسجد اقصیٰ اور اس کے اطراف اسرائیلی افواج کی ایک بڑی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے وزیر ایتمار بن گویر کی حمایت کے باعث اس سال کا حملہ سب سے خطرناک نوعیت کا ہے، کیونکہ اس نے آبادکاروں کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔

” فراس کے مطابق، آبادکاروں نے مسجد کے صحنوں میں تلمودی عبادات اور رقص بھی کیے، جو کھلی اشتعال انگیزی اور مذہبی مقامات کی بے حرمتی ہے۔ القدس گورنری کے ترجمان معروف الرفاعی کے مطابق، اسرائیل نے 80 سے زائد چیک پوائنٹس لگا کر عیسائی زائرین کو بھی اپنے مقدس ترین مقام چرچ آف دی ہولی سیپلکر (کلیسائے قیامت) تک پہنچنے سے روک دیا۔ حالانکہ کنائس القدس (یروشلم کے کلیساؤں) نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عیسائیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت دے تاکہ وہ اپنے مذہبی فرائض ادا کر سکیں۔ مگر قابض درندوں نے ان کی اپیل کو مسترد کردیا۔

واضح رہے کہ مغربی کنارے میں عیسائیوں کی آبادی تقریباً 50000 ہے اور غزہ میں تقریباً 5000۔ مسیحی برادری بھی صہیونیوں کے ہاتھوں مظالم کی چکی میں پس رہی ہے اور انہیں بھی ان کی بین الاقوامی کمیونٹی ایسے ہی بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے جیسے کہ قدسیوں کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے۔

Related Posts