امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کے معاملے پر پیشرفت ہو رہی ہے اور ان کی واپسی قریب ہے۔
اس بیان کے بعد اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت نے انکشاف کیا ہے کہ یرغمالیوں کے خاندانوں کو ایک تحریری پیغام موصول ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک جامع معاہدے پر کام کر رہی ہے۔
اخبار کے مطابق امریکی ایلچی اسٹیفن وِٹکوف نے ان خاندانوں سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ایک سنجیدہ اور حقیقی معاہدہ میز پر ہے اور یہ محض چند دنوں کی بات ہے کہ معاملہ مکمل ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ یہ پیشرفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیل میں غزہ کی جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاملے پر شدید اندرونی دباؤ اور عوامی مظاہرے جاری ہیں اور اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی جنگ بندی کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ کی جنگ کے خلاف جاری احتجاجی تحریک میں مزید شدت آ گئی ہے، جہاں یونٹ 8200 کے سینکڑوں ریزرو فوجیوں اور تقریباً دو ہزار یونیورسٹی اساتذہ نے جنگ کے خاتمے کے لیے ایک احتجاجی عریضہ پر دستخط کر دیئے ہیں۔
اسرائیلی چینل 12 کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صرف ایک سیاسی معاہدہ ہی سے یرغمالیوں کی واپسی ممکن ہے۔ فوجی دباؤ اکثر ان کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔
اسرائیلی چینل 13 کے مطابق یونٹ 8200 کے فوجیوں نے بھی خبردار کیا کہ جنگ کا تسلسل فوجی اہلکاروں اور یرغمالیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اسرائیلی چینل کے مطابق ریزرو فورسز میں سروس سے انکار کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، جو تشویشناک ہے۔ اسرائیلی آرمی ریڈیو کے مطابق تقریباً 100 فوجی ریزرو ڈاکٹرز نے بھی عریضے پر دستخط کیے، جس میں غزہ پر جاری جنگ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جمعرات کو فوجی سربراہ جنرل ایال زامیر نے ان اقدامات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کئی اعلیٰ افسران اور تقریباً 1000 ریزرو فوجیوں کو برطرف کرنے کے فیصلے کی توثیق کر دی، جنہوں نے احتجاجی عریضے پر دستخط کیے تھے۔
غزہ اور اسرائیل سے متعلق ضیاء چترالی کی مزید تحاریر پڑھیں