ایک ایسے وقت جب ملک میں بدترین سیاسی عدم استحکام کے ساتھ بلوچستان اور کے پی کے کے مختلف حصوں میں دہشت گردی عروج پر ہے، صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں شیعہ سنی بنیاد پر قبائل کے درمیان خونریز تصادم کا انتہائی ناگوار سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جمعرات اکیس نومبر کو لوئر کرم میں سنی اکثریتی علاقے میں اہل تشیع کے قافلے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے ردعمل میں جمعہ بائیس نومبر کی شام سے انتقام در انتقام کی بدترین آگ سلگ اٹھی ہے اور وہ سامنے آنے والے ہر فرد، مکان اور دکان کو بھسم کیے دے رہی ہے۔
حالات یہ ہیں کہ شیعہ و سنی قبائل باقاعدہ ایک دوسرے کے خلاف بھاری ہتھیاروں کے ساتھ مورچہ زن ہیں اور ایک دوسرے کے علاقوں میں پیش قدمی کرتے ہوئے ہر ذی نفس کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے درپے ہیں۔ سب کے سر پر خون سوار ہے۔ ایسی ایسی دلدوز ویڈیوز اور تصاویر سامنے آ رہی ہیں کہ سفاکیت کی انتہا دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ سب ایک ہی قوم (پشتون) اور ایک ہی مذہب و کلمے کے ماننے والے ہیں۔
دونوں ہی فرقوں سے تعلق رکھنے والے خود کو مظلوم اور مخالف کو سفاک، ظالم اور دہشت گرد قرار دے کر گویا اس پھیلتی ہوئی آگ کے شعلوں کو مزید بھڑکانے اور ہوا دینے کا “فریضہ” انجام دے رہے ہیں اور جن کے ذمے اس آگ کو بجھانے اور امن قائم کرنے کی ذمے داری ہے انہوں نے دوسری ترجیحات اپنا لی ہیں۔
ضلع ملک کی سرحد پر ایک انتہائی حساس مقام اور نازک جغرافیہ پر واقع ہے۔ یہ تین اطراف سے افغانستان میں گھرا ہوا ہے اور اس کا صرف ایک حصہ پاکستان سے ملحق ہے۔ اس پر مستزاد اس ضلع کی آبادی میں فرقہ وارانہ تقسیم ہے جو اس علاقے کی حساسیت کو دوچند کرنے کے ساتھ وقتا فوقتا اسے ایک ایسے لاوے کی شکل میں بدل دیتی ہے جس کے اثرات پورے ملک میں محسوس کیے جاتے ہیں۔
ضلع کرم صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک قبائلی ضلع ہے، یہاں طوری، بنگش، تری منگل جیسے قبائل آباد ہیں، ان قبائل کے درمیان جہاں اس ضلع کے مختلف مقامات پر پہاڑوں، جنگلات، زمین کی حدود اور شاملات کے تنازعات ہیں، وہاں یہ قبائل شیعہ اور سنی میں بھی تقسیم ہیں، جس کی بنا پر مختلف قبائل کے افراد کے درمیان ذاتی نوعیت کی لڑائیاں بھی یہاں فرقہ وارانہ اختلاف کے پس منظر میں دو فرقوں کی جنگ میں بدل جاتی ہیں اور یہ سلسلہ تقریباً پون صدی سے زائد عرصے سے جاری ہے، اس تمام عرصے میں یہاں متعدد بار بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے ہیں، جن میں اب تک فریقین کے ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔
بہت سے لوگ یا تو مصلحت کے پیش نظر یا حقائق سے منہ موڑنے کی کوشش میں ضلع کرم کے ان مسائل کو صرف اور صرف زمین کے تنازعات سے جوڑتے ہیں، جو مکمل سچائی ہرگز نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر قتل و قتال کا محرک صرف اور صرف فرقہ وارانہ اختلاف ہی رہا ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق یہاں پہلا باقاعدہ فساد 1938 میں ہوا۔ اس کی وجہ کوئی زمین کی لڑائی ہرگز نہ تھی۔ واقعہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں شیعہ سنی مارا ماری ہوئی، جس کے اثرات سینکڑوں کلومیٹر دور اس انتہائی دور افتادہ علاقے میں بھی ظاہر ہوئے اور لکھنؤ کے فساد کو لیکر یہاں کے شیعہ اور سنی بھی آپس میں بھڑ گئے اور ایک دوسرے کا خوب قتل و خون کیا۔ یہ صرف پہلا واقعہ نہیں، قیام پاکستان کے بعد انیس سو ستر کی دہائی، اسی کی دہائی، نوے کی دہائی اور اب تک بے شمار بار یہاں قتال و کشتار کی بساط “سجی” ہے اور سب میں فرقہ و مذہب ایک بڑے فیکٹر اور اصل قوت محرکہ کے طور پر موجود رہا ہے۔
کرم میں شیعہ سنی خلیج اس قدر گہری ہے کہ یہاں زمین کے تنازعات شدت اختیار کرتے ہیں تو فرقے سے جڑے تعصبات انہیں مزید ہوا دینے کیلئے بروئے کار آتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے خلاف وہ بے رحمی، شدت، نفرت اور درندگی ان کے جذبات میں در آتی ہے کہ الامان و الحفیظ، جس کے مظاہر آج اس علاقے میں جاری درندگی و بہیمیت کے واقعات کی شکل میں ہر کوئی سوشل میڈیا پر دیکھ سکتا ہے۔
تین اطراف سے افغانستان میں گھرے ضلع کرم میں پاڑہ چنار اور صدہ دو بڑے اور مرکزی اہمیت کے مقامات ہیں، پاڑہ چنار جو اپر کرم میں واقع ہے، میں شیعہ اور صدہ جو لوئر کرم میں پڑتا ہے، میں اہل سنت کی اکثریت ہے، درمیان میں کہیں مکس آبادی ہے اور کہیں مختلف فرقوں کے پس منظر کے لوگ اکثریت میں ہیں اور جب بھی فساد کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے ہر فرقے سے وابستہ قبیلہ مخالف کی آبادی میں گھس جاتا ہے اور درندگی کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔
حالیہ واقعات بظاہر جمعرات اکیس نومبر کو لوئر کرم میں پاڑہ چنار کے قریب اہل تشیع کے ایک قافلے پر حملے کا نتیجہ ہیں، تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق اکیس نومبر کو اہل تشیع کے قافلے کو جو نشانہ بنایا گیا، وہ دراصل اس سے قبل اکتوبر میں شیعہ اکثریتی اپر کرم میں کونج علیزئی کے مقام پر اہل سنت کے قافلے پر کیے گئے حملے کا رد عمل تھا، جبکہ اکتوبر کے حملے کی کھوج لگائی جائے تو اس کے پس منظر میں بھی کوئی ایسا ہی خونین واقعہ موجود ہوگا، کیونکہ اس علاقے میں انتقام در انتقام میں ایک دوسرے کے اجتماعی قتل کی سفاکانہ اور افسوسناک روایت شروع سے ہی چلی آ رہی ہے۔
جمعرات کے خوفناک واقعے کے بعد جس میں اسی سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے، جن میں نوزائیدہ بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، جمعے کی شام ایک اور انتقام کی لہر اٹھی اور اہل تشیع طوری قبیلے کے لشکر نے لوئر کرم کے اہل سنت اکثریتی علاقے بگن پر ہلہ بول دیا، جس کے بعد بھاری ہتھیاروں اور آتش گیر آلات کے ساتھ دوطرفہ جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک چالیس افراد جان بحق ہوچکے ہیں، تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے، جبکہ بگن کا پورا بازار اور آس پاس کے مکانات کو بھی جلاکر بھسم کر دیا گیا ہے اور لڑائی بدستور جاری ہے۔
ضلع کرم صوبہ کے پی کے کا ایک ضلع ہونے کے ناتے یہاں امن و امان کے قیام کی بنیادی ذمے داری صوبائی حکومت اور صوبائی انتظامیہ کی ہے، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت اس پورے معاملے سے عملاً لاتعلق نظر آتی ہے، کرم میں جاری لڑائی متعدد خونین واقعات کا تسلسل ہے، بالخصوص پچھلے کئی ماہ سے چھوٹے بڑے تصادم اور راستوں کی بندش کا سلسلہ جاری تھا، مگر صوبائی حکومت نے اپنے زیر انتظام اس علاقے میں جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا، آج بھی جب یہ آگ شدت سے بھڑکی ہوئی ہے صوبے کے منتظم اعلیٰ ایک مذمتی بیان جاری کرکے بڑے آرام سے اسلام آباد پر سیاسی یلغار کی قیادت کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اگر اس وقت صوبائی حکومت اس معاملے سے لاتعلق ہے تو ماضی میں حکومتوں کی انتظامی اور فوجی مداخلت سے مسائل حل کرنے کی کوششیں کی بھی جاتی رہی ہیں۔ بالخصوص 2007 میں کرم میں بہت بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ یہ علاقہ مکمل طور پر عسکریت پسندوں کے قبضے میں چلا گیا، جس کے بعد 2008 میں یہاں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا اور فوج نے بڑی جدوجہد کے بعد عارضی طور پر امن بحال کیا۔ اس دوران حکومت نے مقامی قبائل کے درمیان معاہدہ مری بھی کروایا، مگر خرابی کی جڑ وہیں کی وہیں رہی۔ یہ اب بھی موجود ہے اور یہ جب تک باقی رہے گی، باہر سے اور حکومتوں کی انتظامی و فوجی مداخلتوں سے وقت گزاری ہی ہوگی، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ خرابی یہ ہے کہ شیعہ سنی میں بٹے ہوئے مقامی قبائل خود نہیں چاہتے کہ امن ہو۔ جی ہاں عملا یہی صورتحال ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہر قبیلہ اور ہر فرقہ یہی چاہتا ہے کہ یہاں اس کا غلبہ ہو اور مخالف مغلوب ہوکر رہے۔ سوال یہ ہے کہ پون صدی لڑ مر کر بھی جب کوئی کسی کو فتح نہیں کرسکا تو کیا اب یہ ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ شیعہ سنی میں بٹے طوری، بنگش اور تری منگل قبائل کے عمائدین اپنی آئندہ نسل پر رحم کھائیں اور آنے والی نسل کو خونریزی کے بجائے امن و سکون وراثت میں چھوڑیں۔ یقین کریں وہ حقیقی طور پر ہیرو کے طور پر یاد رکھے جائیں گے!