ڈاکٹر عامر لیاقت کا المیہ: چار سبق جو سیکھے جا سکتے ہیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈاکٹر عامر لیاقت کا المیہ: چار سبق جو سیکھے جا سکتے ہیں
ڈاکٹر عامر لیاقت کا المیہ: چار سبق جو سیکھے جا سکتے ہیں

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کی ذاتی زندگی ، مسئلے مسائل، ان کی خامیاں، کمزوریاں سب ان کے ساتھ چلی گئیں۔ ان پربات کرنا مناسب نہیں۔ مثبت پہلوﺅں پر بات کرنی چاہیے یا پھر خاموشی مناسب ہے۔

معاشرے کی نمایاں، اہم اور ممتاز شخصیات کی زندگی کی پرتیںالبتہ ایک سے زیادہ ہوتی ہیں، ان کی دنیا سے رخصتی میں بھی دو پہلو نمایاں ہیں۔ ایک طرف تو انسانی المیہ اور اسی اعتبار سے وہ تعزیت اور دوسری طرف تاریخ کا عنوان بھی بنتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے عروج وزوال میں کئی سبق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان پہلوﺅں پر بات ہوسکتی ہے۔۔ احتیاط یہ کہ جو بھی کہا جائے شائستہ اور متین ہو کہ پسماندگان آزردہ نہ ہوں، دوسراسوگ کے روایتی تین دن گزرنے کا انتظار کر لیا جائے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کامیابی، عروج اور پھر زوال کی ایک ڈرامائی داستان کا نام ہے۔ ان کی زندگی پر ایک اچھی ڈرامائی فلم بن سکتی ہے۔ ایک درمیانے سیاسی گھرانے کے نوجوان کی الیکٹرانک میڈیا پر انٹری،کامیابی، مقبولیت اور پھر رکن اسمبلی، وزیر بن جانا۔ جذبات میں دئیے گئے ایک بیان پر وزارت ختم ، سیاست سے بھی علیحدگی۔ پھر تمام فوکس ٹی وی پر دینا اور غیر معمولی مقبول اینکر، انٹرٹینر کے طور پر نام ، شہرت، پیسہ سب کچھ کمانا۔ سلیبریٹی کا درجہ حاصل کر لینا۔ پھر ذاتی مسائل، شادیاں ، علیحدگیاں ، مسائل در مسائل ، سکینڈلز، گرتی ہوئی ساکھ کو اٹھانے کے لئے عامیانہ درجے کی انٹرٹینمنٹ تک پہنچ جانا۔

اسی عامر لیاقت کواچانک تاریخ نے ایک اور موقعہ دیا۔ پھر سے رکن اسمبلی بنے، کچھ سنجیدگی ، متانت اور عوامی سیاست پر فوکس ہوتا تو وزارت بھی مل جاتی۔ زندگی کے کڑے سفر نے شائد کچھ نفسیاتی عوارض پیدا کر دئیے، جنہوں نے پیچیدگیاں بڑھا دیں۔، جس پارٹی نے ایم این اے بنایا، اس کے خلاف ویڈیو داغ دی، پھر یوٹرن کی ناکام کوشش۔

آخری ناکام شادی اور اس سے پیدا ہونے والی تلخی سے جو سکینڈل پھوٹا، اس سے پیدا ہونے والا شدید ڈپریشن اورنجانے کیا کیا صحت کے مسائل، جو جان ہی لے گئے۔آخری تجزیے میں عامر لیاقت حسین شعلہ مستعجل تھا، تیزی سے بھڑک کر بجھ جانے والا شعلہ۔ پچاس سال کی عمر میں وہ یہ سب کچھ کر کرا کے رخصت ہوگیا۔
عامر لیاقت حسین کی زندگی کاجائزہ لیا جائے تو چارنتائج اخذ ہوتے ہیں، انہیں سبق کہہ لیں، زندگی کا نچوڑ یا کچھ اور۔

فوکس
یہ وہ بڑی غلطی ہے جو بہت سے کامیاب لوگوں سے سرزد ہوتی ہے۔ وہ اپنے جس ہنر کی بنیاد پر میدان مارتے اور نام کماتے ہیں، مختلف وجوہات کی بنا پر اس ہنر پر فوکس کم ہوجاتاہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے مقبولیت ، عزت اور شہرت دینی پروگرام سے حاصل کی۔ عالم آن لائن وہ پروگرام تھا جس نے انہیں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین بنایا۔

وہ وجیہہ آدمی تھے، دلنواز مسکراہٹ لئے شیریں لہجے میں شائستگی اور عمدگی سے مختلف علما دین سے سوالات پوچھتے اور خوبصورت انٹرو، متاثرکن اختتام کرتے۔ عامر لیاقت حسین نے اس پروگرام کے ذریعے ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان کا امیج ایک متین، سنجیدہ پڑھے لکھے بلکہ ایک حلقے کے نزدیک دینی سکالر کا سا بنا۔

وہ اگر اس پر فوکس رکھتے تومزید نام کما سکتے تھے۔ ان میں خطیبانہ صلاحیت تھے، روانی سے اچھا بول سکتے تھے ، اپنی محنت سے دینی مطالعہ میں بھی وسعت پیدا کر لی۔ دینی حساسیت کو وہ سمجھتے تھے ،جذباتی انداز میں لوگوں کو مسحور کر نے کی صلاحیت بھی تھی۔ نجانے ان میں اضطراب تھایا جلدی جلدی بہت کچھ کرنے کا جوش۔ وہ سنجیدہ دینی پروگرام کی میزبانی سے رمضان نشریات کے خاص رنگ کی طرف گئے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عامر لیاقت حسین نے ہی رمضان نشریات کا نیا ٹرینڈ قائم کیاجو بعد میں انٹرٹینمنٹ تک پہنچ گیا۔

وہ نعت پڑھنے کی طرف آئے اور کئی مقبول نعتیں پڑھیں، آواز اچھی تھی، سماں باندھ دیتے تھے۔ایک زمانے میں رمضان کے آخری عشرے میں ان کی طویل جذباتی دعا بہت سوں کو رلا دیتی۔ خواتین اور بزرگ خاص طور سے جذبات کے دھارے میں بہہ جاتے۔ افسوس وہ رمضان نشریات کو بھی متنازع حدوں تک لے گئے ، جس کا انہیں نقصان ہوا۔ آم کھائے گا آم، غالب دیکھی ہے وغیرہ وغیرہ ، ان کے یہ جملے ہٹ تو ہوئے مگر منفی انداز میں۔ عامر لیاقت اس عفریت کا شکار ہوئے، جسے ریٹنگ کہتے ہیں۔

مخلص ناقدین پیدا نہ کرنا
کسی زمانے میں ایک دانشور کا فقرہ پڑھا کہ بڑا آدمی وہ نہیں جو عروج پر پہنچ گیا اور جس نے بے پناہ کامیابیاں سمیٹ لیں بلکہ بڑا آدمی وہ ہے جو اپنے عرو ج پر بھی ماضی کو یاد رکھے اور حرف تنقید گوارا کر سکے۔ یہ غلطی بہت سے لوگوں سے ہوتی ہے کہ کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے وہ اپنے پرانے دوست احباب سے کٹ جاتے ہیں۔ انکے گرد ایک نیا حلقہ آجاتا ہے، عام طور پر خوشامدی ، طفیلی اور نالائق لوگ۔ پرانے دوست احباب کھل کر بات کر سکتے ہیں، وہ مخلصانہ تنقید بھی کرتے اور کسی غلطی کی برملا نشاندہی کر دیتے ہیں۔

جب آپ ان سے کٹ جائیں تو جو نیا حلقہ بنتا ہے ضروری نہیں وہ یہ کام کرے۔ پھر یہ بھی آدمی نے خود طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک خودپر مثبت تنقید برداشت کر سکتا ہے۔ یہ عمومی مزاج ہے کہ لوگ کامیاب ہونے کے بعد معمولی سی تنقید کا بھی برا مان جاتے ہیں۔ اس سے آس پاس والوں کو یہ پیغام ملتاہے کہ ہاں میں ہاں ملائی جائے۔کامیاب لوگوں کو اس مرحلے پر لازمی اہل علم کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔ کسی دانشور، صوفی ،نیک بزرگ کی صحبت صالحہ جو راہ راست پر رہنے میں معاون ہو۔ایسا نہ ہو تو پھر بگاڑلازمی ہے۔

اپنا گھر ڈسٹرب کر دینا
یہ ایک اور ایسی غلطی ہے جو کامیاب اور اسٹیبلش لوگ اکثر کر بیٹھتے ہیں۔ ان کا ایک ہنستا بستا گھرانہ ہوتا ہے، بیوی، بچے ،پرسکون گھریلو ماحول۔ یہی سکون اور سپورٹ انہیں آگے بڑھنے میں معاون ہوتا ہے۔ جب ہاتھ میں پیسہ آجاتا، خوشحالی اور پزیرائی ملتی ہے، تب کئی نئی قسم کی کشش اور ترغیب حملہ آور ہوتی ہے۔ ان میں ایک خاص قسم کا لائف سٹائل، مہنگی ترین اشیا کے استعمال کے ساتھ خواتین کی طرف جھکاﺅ بھی شامل ہے۔

اپنی وفادار ، ساتھ دینے والی بیوی پندرہ بیس سالہ ازدواجی سفر میں ظاہر ہے بعض حوالوں سے کسی اٹھارہ بیس سالہ نوخیز لڑکی جیسی کشش نہیں رکھتی ۔ایسے میںوہ چالیس پنتالیس سالہ کامیاب آدمی دوسری شادی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ نئی شادی وہ گھر بسانے ، اپنی نئی نسل کے لئے لئے نہیں کرتا، اس لئے واحد معیار چکاچوند حسن اور سٹائل رہتا ہے۔سیرت بلکہ کبھی تو کردار وغیرہ کے چکر میں بھی کوئی نہیں پڑتا۔

یہاں سے تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔ہمارے فیملی سسٹم میں دوسری شادی کسی بھی صورت میں قبول نہیں کی جاتی ۔ اگرکسی کے خیرہ کن حسن سے متاثر ہو کر کی جائے تو مرد پہلی بیوی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتا۔ یوں گھر تباہ ہوجاتا ہے، اولاد باغی اورقریبی رشتے دار وغیرہ سب دور ہوجاتے ہیں۔

بیشتر کیسز میں دوسری بیوی سے تعلق صرف مالی خوشحالی یا ممتاز آدمی ہونے کی وجہ سے قائم ہوتا ہے، رشتے میں اخلاص کی کمی ہوتی ہے۔ دونوں طرف سے صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے بنایا گیا تعلق ہوتا ہے، جو زندگی کو مزید بے سکون اور اضطراب کا شکار کر دیتا ہے۔ اگر دوسری شادی ناکام ہوجائے اور خاوند پہلی کی طرف لوٹ آئے تو پھر بھی بگڑتا معاملہ کسی حد تک سنبھل جاتا ہے۔ اگر پہلی کو طلاق دے دی گئی ہواور بندہ دوسری ناکامی کے بعد تیسری کی طرف جائے تب خرابی انتہا پر پہنچ جاتی ہے۔

سپورٹ سسٹم نہ ہونا
کم وبیش ہر کامیاب اور نامور آدمی زندگی کے مختلف مراحل میں جذباتی بحرانوں سے دوچار ہوتا ہے۔ کامیابی کی اپنی ایک قیمت ہے۔ یہ آدمی کوجسمانی اور دماغی کے ساتھ جذباتی طو رپر بھی نچوڑ لیتی ہے۔ ان تھک محنت ، کام کا دباﺅ، شدید مسابقت، آس پاس والوں کی سازشیں،کھانے پینے کے بے ترتیب معمولات،مضر صحت عادتیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں اگر کوئی سپورٹ سسٹم موجود نہ ہو تو آدمی کے کولیپس ہوجانے ، ڈھیر ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ محبت کرنے والے بیوی ، بچے، قریبی عزیز واقارب، مخلص دوست ،لائق شاگرد،جانثار اسسٹنٹ وغیرہ …. یہ ہے وہ سپورٹ سسٹم جو مشکل اور کڑے لمحوں میں کام آتا ہے۔ اسے گرنے سے بچاتا اور دوبارہ سے کھڑا کردیتا ہے۔

یہ سپورٹ سسٹم بہت ضروری ہے۔ بعض لوگوں کی ازدواجی زندگی ڈسٹرب ہوتی ہے، مگر انہیں مخلص دوستوں، ایثار پیشہ شاگردوں ، مشکل میں کام آنے والے فینز کی سپورٹ حاصل ہوجاتی ہے۔ جب کہیں سے کچھ نہ ہو تو پھراچھا بھلا کھڑا آدمی دیمک سے کھائی لکڑی کی طرح اچانک نیچے آ گرتا ہے۔ ایسے کہ کچھ فاصلے پر کھڑے لوگ بھی دنگ رہ جائیں کہ یہ کیا ماجرا ہوا۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا جانا انسانی حیثیت سے صدمہ ہے، قومی اعتبار سے المیہ کہ ایک بہت ٹیلنٹیڈ شخص جس کی سمت اگر درست رہتی تو وہ بہت کچھ کر سکتا تھا، وہ یوں چلا گیا۔ اس سانحہ میں مگرسبق بھی پوشیدہ ہیں، جن سے خاصا کچھ سیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

Related Posts