”پولیس والا“ / پہلا حصہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمارے ہاں جس طرح تمام تعریفیں فوج کے لئے خاص مان لی گئی ہیں، بعینہ یہ بھی طے کرلیا گیا ہے کہ پولیس کے لئے بس برا ہی سوچنا اور کہنا ہے۔ شاید ہماری اسی حرکت نے پولیس کی نفسیاتی حالت اس نوجوان جیسی کردی ہے جو پیدائش کے وقت سے صرف طعنے سن سن کر اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ اگر وہ کچھ اچھا کر بھی لے تو کسی نے کونسا اس کی خوبی کو سراہ لینا ہے؟

لہذا تقدیر کا لکھا قبول کرکے اپنے “بد سے بدنام برا” والے امیج کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہماری اسی مذکورہ سائیکی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص اسلامی تاریخ کے دور اولین کے ان تمام صحابہ کرام سے تو بخوبی واقفیت رکھتا ہے جو “جرنیل” تھے لیکن کسی سے یہ پوچھ لیا جائے کہ اسی دور اولین کے ٹاپ پولیس آفیسرز کون تھے؟ تو ٹاپ کے نام بتانا تو دور کی بات، اگلا شاید یہی سوال پوچھ ڈالے کہ کیا صحابہ کرام میں پولیس والے بھی تھے؟ سو چلیے اس محکمے کا ذکر اسی دور اولین سے شروع کرتے ہیں۔

ہم مسلمانوں کی سیاسی تاریخ ریاست مدینہ سے شروع ہوتی ہے۔ یہ نو زائدہ ریاست ایک ایسے خطے میں وجود میں آئی تھی جو کسی باقاعدہ منظم قسم سلطنت یا ریاست کا حصہ کبھی نہ رہا تھا۔ سو یہاں جو بھی شروع ہونا تھا بالکل بنیاد سے نیا اور پہلی بار شروع ہونا تھا اور اس عمل نے بتدریج آگے بڑھنا تھا۔

چونکہ ابتدائی طور پر یہ ریاست ایک محدود سے خطے پر محیط تھی سو اس کے مسائل اور ضروریات بھی محدود نوعیت کی تھیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اس کی اولین بنیادیں یوں قائم ہوگئیں کہ شہریوں کے حقوق متعین ہوگئے اور حقوق کے تحفط کے لئے جزا و سزا کی نسبت سے عدل کا نظام بھی قائم ہوگیا۔

لوگ گرفتار بھی ہوتے، قید بھی کیے جاتے، کیسز کی سماعت بھی ہوتی، سزا سنائی بھی جاتی اور دی بھی جاتی۔ مگر کوئی باقاعدہ منظم قسم کے ادارے یا محکمے وجود نہیں رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ نظم اجتماعی سے متعلق کسی کام کے لئے وقتی طور پر کسی کو حکم دیدیتے جبکہ بعض کاموں کے لئے کچھ افراد کا مستقل استعمال بھی فرماتے۔ انہی مستقل شخصیات میں سے ایک قیس بن سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں۔ ان سے رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی گرفتاری، قید اور تعزیری سزاؤں کے کام تقریبا مستقل لئے ہیں۔ چنانچہ عمر کے آخری حصے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضرت قیس سے متعلق فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے “صاحب الشرطہ” یعنی پولیس آفیسر تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے حضرت انس بن مالک کے اس ارشاد پر لکھا ہے کہ حضرت انس درحقیقت یہ فرما رہے ہیں کہ حضرت قیس رسول اللہ ﷺ کے لئے صاحب الشرطہ جیسے تھے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہ تو پولیس کا باقاعدہ محکمہ تھا اور نہ ہی صاحب الشرطہ نام کی کوئی اصطلاح وجود رکھتی تھی۔ مگر یہ ذمہ داری حضرت قیس ہی کے سپرد تھی۔ یوں گویا اسلام کے پہلے پولیس آفیسر حضرت قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔

اسلامی ریاست کی تاریخ میں اداروں اور محکموں کے قیام کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ہوا اور بے مثال فراست سے ہوا۔ مثلاََ عدلیہ کے قیام میں یہ اصول ہی دیکھ لیجئے جو آج بھی مسلم ہے کہ عدلیہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں بلکہ مکمل آزاد ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو ادارے اور محکمے قائم فرمائے اُن میں پولیس کا محکمہ بھی شامل ہے۔

آپ نے اس محکمے کا نام “احداث” رکھا۔ جبکہ پولیس چیف کے عہدے کو “صاحب الاحداث” نام دیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ حضرت عمر پہلے سربراہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو یہ ہدایت جاری کی کہ پولیس کو مطلوب کسی بھی مجرم کو پناہ نہ دی جائے۔ ایسا کرنے والا اعانت جرم کا مرتکب سمجھا جائے گا، اور اسے بھی گرفتار کرکے سزا دی جائے گی۔

چونکہ یہ وہ دور تھا جب ادارے پہلی مرتبہ قائم ہورہے تھے سو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہر ادارے کے نظم و نسق کے معاملے میں براہ راست شریک رہتے تاکہ ادارے کی اٹھان انہی خطوط پر ہو جو حضرت عمر کے پیش نظر تھے۔ اس حوالے سے پولیس تفتیش کے نقطہ نظر سے ایک کیس بہت اہم ہے۔ کیونکہ معلوم اسلامی تاریخ میں یہ اس لحاظ سے پہلا کیس ہے جس میں دوران تفتیش “کیمیائی تجزیہ” بھی کیا گیا۔

ہوا یوں کہ ایک انصاری نوجوان صحابی کو ایک خاتون اپنے دام میں پھانسنے میں ناکام ہوئی تو اُس نے اِس نوجوان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ خاتون نے انڈے کی سفیدی اپنے بدن کے نچلے حصے اور کپڑوں پر مل کر گویا ہنگامہ کھڑا کردیا کہ “ہائے میں مرگئی” اور شکایت لے کر سیدھی حضرت عمر کے پاس گئی اور کہا، فلاں نے مجھے رسوا کردیا، اور وہ مجھ پر غالب آگیا۔ جس کے آثار میرے جسم پر بھی ہیں۔

حضرت عمر نے خواتین سے رپورٹ مانگی تو بتا دیا گیا کہ شکایت کنندہ خاتون کے جسم کے نچلے حصے اور کپڑوں پر مادہ منویہ نظر تو آرہا ہے۔ حضرت عمر سزا جاری کرنے لگے تو ملزم نوجوان نے بہت بے قراری سے عرض کیا، اے امیر المؤمنین آپ جلد بازی نہ کیجئے بلکہ مزید تحقیق کر لیجئے۔ میں بے قصور ہوں، یہ عورت درحقیقت مجھے پھانسنے کی کوشش کررہی تھی اور ناکامی پر اب یہ ڈرامہ رچارہی ہے۔ حضرت عمر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے رائے مانگی تو حضرت علی نے کھولتا پانی منگوایا۔ یہ کھولتا پانی حضرت علی نے اس خاتون کے کپڑے کے متاثرہ مقام پر ڈالا تو وہ سکڑ گیا۔ حضرت علی نے مزید کنفرم کرنے کی غرض سے اسے سونگھ بھی لیا۔ اور اس کے بعد حضرت عمر سے کہہ دیا کہ یہ مادہ منویہ نہیں ہے۔ اس پر خاتون سے سخت لہجے میں باز پرس کی گئی تو اس نے اعتراف کرلیا کہ دس درازی کا واقعہ نہیں ہوا تھا، اس نے ڈرامہ رچایا تھا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تجزیے میں جو چیز سامنے آئی تھی وہ یہ تھی انڈے پر اگر گرم پانی ڈالا جائے تو وہ پک کر غذا کی شکل اختیار کر لیتا ہے جبکہ مادہ منویہ پر ڈالا جائے تو وہ دھل جاتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اسلامی ریاست کی تاریخ میں پہلا فرانزک ٹیسٹ کرنے والی ہستی ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ فرانزک ٹیسٹ متعارف کرانے والی پہلی ہستی ہیں۔

پولیس اور جیل لازم و ملزوم ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں لوگوں کو قید کی سزائیں بھی دی گئی تھیں۔ اور اس قید کی شکل یہ ہوتی کہ قیدی مسجد نبوی کے ستونوں کے ساتھ باندھ کر رکھے جاتے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور میں اسلامی تاریخ کی پہلی باقاعدہ جیل قائم کی۔ یہ پہلی جیل مکہ معظمہ میں قائم ہوئی۔ جس کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صفوان بن امیہ سے اُن کا مکان چار ہزار درہم میں خریدا اور اسے جیل میں تبدیل کردیا۔ اور پھر تمام علاقوں میں جیل خانے قائم کروائے۔ بعض علاقوں میں بنے بنائے مکانات خرید کر کیلیں بنائیں تو بعض علاقوں میں باقاعدہ تعمیر کروا کر جیلیں قائم کی گئیں۔

اداروں اور محکموں کا یہ قیام اس لئے بھی ناگزیر ہوچکا تھا کہ ریاست اب تیزی سے پھیلتی جارہی تھی اور حضرت عمر کے دور میں اس کی حدود بائیس لاکھ مربع میل پر محیط ہوچکی تھی۔ یہ اسی پھیلاؤ کا نتیجہ تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اب مدینہ کے مکین نہ تھے بلکہ بحرین کے پولیس چیف تھے۔ (جاری ہے)

Related Posts