تصویر کا دوسرا رخ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تمام انسان ایک ہی طریقے سے کسی تصویر کو دیکھتے یا غور نہیں کرتے بلکہ زیادہ تر لوگوں کا طریقہ کم و بیش ایک جیسا ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ایک ہی تصویر پر ، ایک ہی مضمون یا ایک ہی قسم کے فن پارے پر مختلف افراد کی رائے طلب کی جاتی ہے تو وہ اسے مختلف الفاظ اور انداز سے بیان کرتے ہیں۔

تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ بہت کم لوگ یہ سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ جس گلاس کو وہ آدھا خالی کہہ رہے ہیں، اصل میں آدھا بھرا ہوا تھا، خالی نہیں۔

سائنسی اعتبار سے بھی جب ہم کسی گلاس کو پانی سے آدھا بھر کر کسی جگہ رکھتے ہیں تو وہ نیچے سے تو پانی سے اور اوپر کی جانب سے ہوا سے بھر جاتا ہے کیونکہ ہوا تو ہمارے چاروں جانب موجود ہے۔

دنیا میں بہت سے لوگ دانشور، مفکر یا سائنسدان ہوتے ہیں جو بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتے ہیں اور عوام کی بڑی تعداد انہیں سراہتی ہے، ان کی تعریفیں کرتی اور گن گاتی نظر آتی ہے۔

ایک طبقہ اور بھی ہے جو یہ غور و فکر کرتا ہے کہ جو لوگ سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر یا پھر بڑے عہدوں پر فائز افسران بن گئے، انہوں نے آخر ایسا کیا کیا تھا جو عام لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا۔

ہر شخص سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ بے شمار لوگ کمتر درجوں سے ہی ترقی کرکے آگے کی منزل تک پہنچتے ہیں کیونکہ ان کا دماغ ہمیشہ عام لوگوں سے کچھ الگ سوچتا ہے۔

دراصل ایسے لوگ تصویر کا ایک رخ دیکھنے کی بجائے دونوں رخ دیکھتے ہیں۔ فیصلہ کرنے سے قبل دونوں طرف کی آراء سنتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون سی رائے درست ہے اور کون سی غلط۔

فیصلہ سازی ایک اہم صلاحیت ہے جو تمام انسانوں میں کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ بھی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے بچاؤ یا بہتری کیلئے بہتر قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کسی بھی صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھانا اسے کمزور کردیتا ہے اور بار بار مشق سے وہی صلاحیت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ جتنی زیادہ مشق کی جاتی ہے، اتنی ہی صلاحیت بہتر ہوکر سامنے آتی ہے۔

پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ صلاحیت مسلسل مشق کرنے والے انسان کی طاقت بن جاتی ہے، ایک ایسی طاقت جسے اپنے مقاصدِ زندگی کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کو پہچانے، اس کی قدر کرے اور اسے مسلسل مشق سے اپنی طاقت بناتا چلا جائے اور اپنے روئیے میں اتنی لچک ضرور پیدا کرے کہ کسی بھی تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ کرنے کی بجائے واقعات کا دوسرا پہلو بھی مدِ نظر رکھے۔