معیشت کی بحالی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں  وفاقی کابینہ نے ملک میں لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کی منظوری دیدی ہے تاہم حتمی فیصلہ این سی اوسی کے اجلاس میں کیا جائیگا جبکہ پنجاب حکومت نے بھی 9 مئی سے صوبے میں لاک ڈاؤن میں کمی کرکے کاوربار زندگی بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان میں کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے کے بعد مارچ سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث معاشی سرگرمیاں ماند اور صنعتوں کا پہیہ جام ہوچکا ہے،بندرگاہوں پر خام اور تیار مال درآمد وبرآمدات بند ہونے کی وجہ سے خراب ہورہاہے، ملوں اور فیکٹریوں میں کام بند ہونے کی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔

وفاقی وزیراسد عمر کے مطابق اگر ملک میں لاک ڈاؤن جاری رہاتو ملک میں 10 لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائینگے اور لاکھوں  لوگوں کا روزگار ختم ہوجائیگا،وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک کروڑ 80 لاکھ تک افراد بے روزگار ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

پاکستان کورونا کی وباء سے پہلے بھی معاشی مشکلات سے نبردآزما تھا تاہم معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت کسی حد تک چل ضرور رہی تھی جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا ذریعہ سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانیوالی رقوم تھیں تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں لاکھوں پاکستان روزگار سے محروم ہوکر وطن واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں اور ہزاروں تارکین وطن شہر واپس لوٹ بھی چکے ہیں ۔

سمندر پار پاکستانیوں کی ملازمتوں سے برطرفی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر اور آمد کا سلسلہ بھی معطل ہوگیا ہے جو حکومت وقت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، ایک طرف ملک میں معاشی سرگرمیوں کا انجماد اور دوسری طرف بیرون ممالک سے زرمبادلہ کے ذرائع مسدود ہونے سے حکومت شدید مشکلات سے دوچار ہوچکی ہے۔

وفاقی حکومت بیرون ممالک سے امداد وقرضے لیکر ملک کا نظم ونسق چلانے کی کوشش کررہی ہے اور عالمی وباء سے متاثر ہونیوالوں کی دادرسی کیلئے حتیٰ المقدور اقدامات اٹھارہی ہے جبکہ ملک کے معاشی حب کراچی میں معاشی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال نہ ہونے کی وجہ سے تاجروں اور صنعت کاروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا سامنا ہے اور ہزاروں مزدور بیروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان روز اول سے لاک ڈاؤن کے مخالف تھے جس کا انہوں نے ہمیشہ برملا اظہار بھی کیا اور آج تقریباً دو ماہ گزرنے کے بعد ان کے خدشات درست ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کہ کورونا کے بجائے پاکستان میں بھوک سے زیادہ لوگ مرجائیں گے۔

آج پورے ملک میں تاجروں اور صنعتکاروں کے علاوہ نچلے اور متوسط طبقے میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، پاکستان میں چند سال قبل دہشت گردی ودیگر مسائل کے باعث بڑی بڑی صنعتیں بند اور سرمایہ کار دیگر ممالک میں منتقل ہوگئے تھے جبکہ گزشتہ چند سالوں میں امن بحال ہونے کے بعد معیشت کا پہیہ ابھی رواں ہونے کو تھا کہ مزید مشکلات آن پڑیں جس کی وجہ سے ملک مزید مشکلات مسائل سے دوچا ہوچکا ہے۔

بیرون قرضوں اور ریلیف پیکیجز سے عوام کو وقت سہارا تو دیا جاسکتا ہے لیکن ملک نہیں چلایا جاسکتا، اس لئے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ایس او پیز کے تحت ملک میں کاروباری سرگرمیاں بحال کرکے معیشت کا پہیہ رواں کیا جائے تاکہ عوام کو روزگارکی فراہمی کے ساتھ معاشی مسائل سے بھی نمٹا جاسکے۔

Related Posts