سابقہ حکومت کی قائم کردہ رحمۃ للعالمین ﷺ اتھارٹی کا ایکٹ نہ بن سکا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابقہ حکومت کی قائم کردہ رحمۃ للعالمین ﷺ اتھارٹی کا ایکٹ نہ بن سکا
سابقہ حکومت کی قائم کردہ رحمۃ للعالمین ﷺ اتھارٹی کا ایکٹ نہ بن سکا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : ساڑھے تین سالہ دورِحکومت میں سابقہ حکومت اپنے مرکزی نعرے ریاست مدینہ کے مطابق رحمۃ للعالمین ﷺ اتھارٹی کا ایکٹ نہ بنا سکی ، سست روی کی وجہ سے رحمۃ اللعالمین اتھارٹی جیسے شاہکار منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے اتھارٹی کا آرڈیننس جون کے دوسرے ہفتے میں ختم ہو جائے گا ۔

نصاب میں سیرت النبی  ﷺ کی شمولیت ، نئی نوجوان نسل کی تربیت کے رہنما اصول ، اسلامو فوبیاکا مقابلہ،میڈیا میں بچوں کی تربیت کے لیے اصلاحی مثبت پروگرام پیش کرنے کے علاوہ بے شمار اہم عنوانات کے لیے قائم کی گئی  رحمۃ للعالمین ﷺ اتھارٹی کو گزشتہ حکومت بڑے دعووں کے باجود ایکٹ میں منتقل نہ کر سکی۔

یہ بھی پڑھیں:

وزیر اعظم اور کابینہ منظوری کے بغیر حبیب الرحمٰن گیلانی چیئرمین متروکہ املاک بورڈ مقرر

اگر موجودہ حکومت نے اتھارٹی کا بروقت ایکٹ نہ بنایا تو فروری 2022 کاجاری کردہ آرڈیننس جون کے دوسرے ہفتہ میں خود بخود ختم ہوجائے گا۔گزشتہ حکومت نے اتھارٹی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اکرم اعجاز کو ان کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور کچھ ممبران کی غلط سفارش کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا تھا ۔

حیرت انگیز طو رپرسابق چیئرمین ڈاکٹر اکرم اعجاز سمیت ابتدائی 3 ممبران میں سے ایک ممبر ڈاکٹر باسط کوشل آن لائن میٹنگ میں شرکت تو کرتے رہے مگر انہیں 4 ماہ تک باقاعدہ نوٹیفائی نہیں کیا جاسکا ، جس کی وجہ سے ابتدائی تین ماہ تک سب کی کارکردگی زبانی دعووں تک محدود رہی۔

اسی طرح سابق چیئرمین ڈاکٹر اکرم اعجاز اپنی مرضی کے مزید دو افراداتھارٹی میں لانا چاہتے تھے جس پر سابق وزیر تعلیم شفقت محمود رکاوٹ بنے اور انہوں نے سابق وزیر اعظم کو ان دو سفارشی لوگوں کی فائل پر تفصیلات پیش کی تھیں ۔

وزارت تعلیم کے قریبی ذرائع کے مطابق اعجازاکرم کے چہیتے اور اتھارٹی کے ممبران سہیل عمر جوکہ اقبال اکیڈمی میں مالی بد عنوانی میں ملوث ہیں اور انہیں نوکری سے نکالا گیا تھا ، جو اب تک نیب کی انکوائری بھگت رہے ہیں جب کہ دوسرے ممبر بھی سہیل احمد کی طرح نان پی ایچ ڈی تھے۔

ابتدائی تین ممبران میں سے ڈاکٹر محمد الیاس جن کو سیرت کے ممبر کے طور پررکھا گیا ہے ، وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سرکاری ملازم ہیں ، جن کا سیرت ا لنبی ﷺ پر کوئی تحقیقی کام سامنے نہیں  آیا،اس کے علاوہ ڈاکٹر الیاس ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں سیرت چیئر کے اعزازی رکن بھی رہے ہیں ، لیکن وہاں بھی ریکارڈ پر کوئی کام سامنے نہیں آسکا۔

دوسری ممبر قائد اعظم یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر تنویر انجم ہیں ، جن کو بین الاقوامی آؤٹ ریچ کے طور پر ممبر بنایا گیا ہے،  جو صوفیہ سلسلے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کا بھی سیرت پر کوئی کام نہیں ہے، جب کہ تیسری ممبر ڈاکٹر عائشہ لغاری ہیں ،جو اتھارٹی میں کیری کلم کی ممبر ہیں ، جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں پڑھاتی رہیں اور سلیبس پر کام کررکھا ہے،ان کا بھی سیرت پر کوئی کام نہیں ہے۔

مذکورہ تینوں ممبران ڈاکٹر اعجاز اکرم کی خواہش اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سفارش پر نوٹیفائی ہوئے تھے لیکن ابتدائی منظوری شفقت محمود اور انٹرویو کمیٹی سے ہی عمل میں لائی گئی تھی۔تاہم دوسری مرتبہ بھی ڈاکٹر اکرم اعجاز نے مزیدد دو ممبران کو سفارش پر بھرتی کرنے کی کوشش کی ، جس پر سابق وزیر شفقت محمود نے ڈاکٹر اعجاز اکرم کے دباؤ میں آئے بغیر میرٹ پر دو افراد کا تقرر کیا تھا ۔

ذرائع سے مکمل تحقیق و تصدیق کے بعد معلوم ہوا کہ آخر کے دوممبران ڈاکٹر مدثرعلی جن کو خصوصی اقدام کے ممبر کے طور پر رکھا گیا ہے ، اور ڈاکٹر عامر طاسین کو ممبر میڈیا کے طور پر مقررکیا گیا ہے ۔یہ دونوں ممبران گزشتہ تین ممبران سے زیادہ قابلیت و اہلیت اور اپنی فیلڈ میں تجربہ رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مدثرعلی قطر یونیورسٹی کے مستقل ملازم ہیں اور وہ اتھارٹی میں اعزازی ممبر ہیں، ڈاکٹر مدثر نے کئی عربی اردو کتب کے تراجم بھی کیے ہیں اور ان کے بے شمار تحقیقی مقالات بھی شائع ہوئے ہیں۔
دوسرے ممبر ڈاکٹر عامر طاسین کی ویب سائٹ اور دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ انہوں نے سیرت کے مختلف عنوانات پر بے شمار تحقیقی مقالات تحریر کیے ہیں اور خصوصی طور پرآٹھ مرتبہ مختلف وزائے اعظم اور وفاقی وزیروں سے قومی سیرت ایوارڈز اور اسناد بھی وصول کرتے رہے ہیں اور ان کا پرائیویٹ میڈیا چینلز میں کام کرنے کا تجربہ بھی 16 سال کا رہا ہے۔ نواز شریف حکومت میں پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے کامیاب چیئرمین بھی رہے۔

وزارت تعلیم کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ ڈاکٹر اعجاز اکرم کو ان کی ناقص کاکردگی پر ہٹا کر ان کی جگہ ڈاکٹر انیس احمد کو چیئرمین بنایا گیا ہے جن کی اہلیت کے بارے میں تمام علمی حلقے گواہ ہیں لیکن ابتدائی تین سفارشی لوگوں کی بھرتی پر ان کی چار ماہ میں کوئی کارکردگی سامنے نہیں آسکی ۔

یہاں تک یہ تینوں ممبرز اسلام آباد میں ہونے کے باوجود سوائے اجلاس میں شرکت کے ،اتھارٹی کے دفتر میں نہیں بیٹھتے اور مفت کی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ اتھارٹی کے چھ ممبران میں سے اب تک ایک نشست خالی ہے جس پر کسی اور اہل شخص کا اب تک تقرر نہیں کیا جاسکا۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ، وزارت مذہبی امور  اور وزارت تعلیم کی جانب سے اس اتھارٹی میں خصوصی دلچپسی لینے کی بنیاد پر ہی اتھارٹی اپنا کام جاری رکھ سکے گی ، بصورت دیگر فروری 2022 میں قائم کردہ رحمت للعالمین ﷺ اتھارٹی کا آرڈیننس جون کے دوسرے ہفتے میں ختم ہو جائے گا ۔

اس حوالے سے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ  اتھارٹی کے بنیادی مقاصد بہت اہم ہیں اور ان پر یقیناّ کام ہونا چاہیئے ۔ اتھارٹی کو کسی صورت بند نہیں کیا جانا چاہئے، ورنہ ایک مرتبہ پھر موجودہ اپوزیشن اس حکومت کو توہین رسالت ﷺ کے زمرے میں لا کر بدنام کرنے کی کوشش کرے گی ۔

Related Posts