اہم ترین تعیناتی پر سیاست

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیاست میں اقتدار کی رسہ کشی نہ ہو تو یہ اپنی موت آپ مر جائے کیونکہ یہ تو نام ہی اقتدار کیلئے جدوجہد کا ہے جبکہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے عوام کو سیاست برائے خدمت کا جھانسہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دیا جارہا ہے۔

سیاست برائے خدمت نام کی اگر کوئی چڑیا ہے بھی تو وہ جنوبی ایشیائی ممالک، بالخصوص پاکستان میں پرواز کرتی نظر نہیں آتی جہاں ریاستی ستونوں میں سیاستدان سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں اور عسکری قیادت، عدلیہ اور کسی حد تک صحافت اس کے بہت بعد میں آتی ہے۔

ویسے تو عدلیہ اور صحافت کے علمبردار بھی موقع ملنے پر کسی فرعون سے کم کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے تاہم سیاستدانوں نے موجودہ دور میں جس عجیب و غریب طریقے سے ایک اہم تعیناتی کو سیاسی رسہ کشی میں گھسیٹا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال شاید ہی دستیاب ہو۔

بلاشبہ آرمی چیف کی تعیناتی ایک اہم معاملہ ہے تاہم پاک فوج کے سربراہ یعنی سپہ سالار کا عہدہ سیاستدانوں کیلئے اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟ موجودہ دور کے سیاسی شعور سے معمور اذہان اس سوال کا جواب خوب جانتے ہیں۔

موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے الوداعی دوروں سے یہ بات خوب عیاں ہے کہ وہ توسیع کا ارادہ نہیں رکھتے، آج سے 2 روز قبل بھی آرمی چیف نے پی ایم اے کاکول اور بلوچ رجمنٹل سینٹر ایبٹ آباد کا دورہ کیا، کور کمانڈر راولپنڈی استقبال کیلئے موجود تھے۔

الوداعی دورے کے موقعے پر آرمی چیف نے یادگارِ شہداء پر پھول رکھے، فاتحہ خوانی کی اور کیڈیٹس اور افسران سے بات چیت کی اور کیڈیٹس کو اپنی تمام تر توجہ پیشہ ورانہ مہارتوں پر مرکوز رکھنے کی ہدایت بھی فرمائی۔

گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل نے ذرائع کے حوالے سے خبر چلائی کہ نئے آرمی چیف کا تقرر 20 نومبر کے قریب ہوگا، سینیارٹی کو توجہ دی جائے گی۔ نجی ٹی وی چینل کا کہنا تھا کہ معاملے کی حساسیت دیکھتے ہوئے نئے آرمی چیف کا نام سامنے نہیں لایا جاسکتا۔

تعیناتی پر سیاست کا الزام چیئرمین پی ٹی آئی پر عائد کیا جاتا ہے جس کی وجہ متعدد جلسوں میں عمران خان کی تقریریں ہیں جن میں وہ واضح طور پر کہتے نظر آتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ آرمی چیف کو مقرر کرسکیں۔

آئینِ پاکستان کے تحت تو آرمی چیف کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کی صوابدید ہوا کرتا ہے تاہم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کا اصل فیصلہ نواز شریف کریں گے، انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کوئی مجرم یا مفرور ملزم تقرری کا فیصلہ کیسے کرسکتا ہے؟

ماضی میں عمران خان نے یہ بھی کہا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس وقت تک توسیع دے دینی چاہئے جب تک کہ عام انتخابات نہ ہوجائیں اور نئی منتخب حکومت اقتدار نہ سنبھال لے، تاہم موجودہ حکمراں اتحاد اس قسم کے مطالبات ماننے سے مسلسل انکاری رہا ہے۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی 2 روز قبل کہا کہ 18 یا 19 نومبر کے بعد ہی آرمی چیف کی تعیناتی پر مشاورت ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کا کوئی پسندیدہ نام نہیں ہے۔ عمران خان کے تقرری پر بیانات کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے، چیئرمین پی ٹی آئی ذاتی مفاد کیلئے قومی مفاد سے کھیل رہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی یا توسیع کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے تاکہ عمران خان، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب اور دیگر کے مابین اہم ترین تعیناتی پر جو بحث ہورہی ہے، وہ ختم ہو اور ملک جس بد ترین سیاسی بحران کا شکار ہے، وہ اپنی موت آپ مر جائے۔

Related Posts