نیب کا پلی بارگین قانون:دے کے رشوت چھوٹ جا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کرپشن نے ہماری سماجی‘سیاسی اور مذہبی زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے ،کرپشن پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے ،ملک کا کوئی ادارہ کرپشن کے ناسور سے محفوظ نہیں رہا، کرپشن نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے،بدعنوانی ایک سماجی ظلم ہےاور کرپشن کرنے والے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے اورملک سے غداری کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو نیب قانون بدلنے اور نیا نیب قانون لانے کیلئے 3 ماہ کی مہلت دیدی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کاکہنا ہے کہ حکومت نے آرڈیننس سے نیب کے پر کاٹ دئیے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دی تھی تاہم سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ موجودہ طریقہ کار میں کیس زندگی بھر ختم نہیں ہوسکتا، 3 ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو عدالت قانون کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریگی جبکہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ، پلی بارگین پرہدایت دے چکے ہیں،کسی شق کو ختم کیا تو نیب کاقانون اڑ جائیگا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ لوگوں کا پیسہ ہڑپ کرلیا جاتا ہے، کرپشن کی رقم واپس کرنے والوں کو اب نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑیگا، سپریم کورٹ احتساب بیوروکو پلی بارگین سے روک چکی ہے، جب تک پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرلیتی اب یہ اختیار استعمال نہیں ہوگا۔

پلی بارگین سے متعلق نیب کی شق 25 دو حصوں پر مشتمل ہے جسے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 2002 میں نیب آرڈیننس میں شامل کیا گیا تھا۔

شق ’اے‘ رضاکارانہ واپسی سے متعلق ہے، جس کے تحت اگر کسی شخص کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں اور تو ملزم کے پاس آپشن ہے کہ وہ انکوائری کے دوران رضاکارانہ طور پر رقم واپس کر سکتا ہے جس کے بعد ملزم کوقانونی کارروائی سے بھی بچ جائیگا۔

شق 25 کا ’بی‘ حصے میں اگر کوئی معاملہ انکوائری سے تفتیش کے مرحلے تک پہنچ گیا ہوتو بھی ملزم اگررقم واپس کرنے پر راضی ہو جاتا ہے توچیئرمین نیب کی منظوری کے بعد معاملہ عدالت بھجوایا جاتا ہےاور عدالتی منظوری کے بعد ملزم سے رقم کی ادائیگی کے لیے کہا جاتا ہے۔

یہ چیئرمین نیب کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ ملزم کی طرف سے کتنی رقم کی واپسی پر مطمئن ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ اگرملزم پوری رقم ادا کرے یا پھر رقم کے کچھ حصے کی ادائیگی کے بعد معاملہ ختم کر دیا جائے۔

تفتیش کے دوران پلی بارگین کے بعد معاملے کی تفتیش کرنے والے افسر کو بھی کچھ حصہ ملتا ہے۔ اگر نیب اہلکار سرکاری ٹھیکوں میں خردبرد کا پتہ چلاتے ہیں تو برآمد ہونے والی رقم میں سے 25 فیصد نیب کے اکاؤنٹ میں چلاجاتا ہے۔

سرکاری افسران اور دیگر افراد خود پر لگائے گئے الزامات کو انکوائری کی حد تک ہی ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مقدمات کو ملزمان کی طرف سے رضاکارانہ رقم کی واپسی کے بعد انکوائری کی حد تک داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔

یہ پلی بارگین ایسا عجیب گورکھ دھندا ہے کہ ہمار ملک میں  موبائل چور‘ بکری چور یاجیب کترا پکڑا جائے تو پہلے عام شہری درگت بناتے ہیں‘ پھر پولیس والے اپنا غصہ نکالتے اور آخر میں وہ بے چارہ طویل مدت تک حوالات اور جیل کی ہوا کھاتا ہے۔

اگر کوئی سیاستدان‘ بیورو کریٹ یاتاجر و صنعت کار پکڑا جائے تو وہ جیل میں کم اور اسپتال میں زیادہ شاہانہ شب و روز بسر کرتا ہے۔

کرپٹ عناصرلوٹی گئی رقم کا صرف دس بیس فیصد پلی بارگین کے ذریعے نیب کودے کر بآسانی چھوٹ جاتے ہیں اورباقی ماندہ رقم سے عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔

اربوں کھربوں روپے لوٹنے کے بعد دس یا بیس فیصد رقم کے عوض انسان اگر پرتعیش زندگی بسر کر سکتا ہے تو کس کا قومی خزانہ لوٹنے کو نہ چاہے گا۔

بقول شاعر
آمیں بتاؤں تجھ کو تدبیر رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ‘ دے کے رشوت چھوٹ جا

Related Posts