پی آئی اے، اسٹیل مل اور دیگر ادارے توجہ کے متقاضی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن اور پاکستان اسٹیل مل اہم قومی اثاثے ہیں جن کوتوجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ وزیر مملکت برائے پیداوار حماد اظہر نے حال ہی میں کہا ہے کہ چونکہ پاک اسٹیل مل خزانے پر بوجھ بن چکی ہے ، لہٰذا اس کی نجکاری ناگزیر ہے ۔اسی طرح پی آئی اے کو پاکستان کی شناخت کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن اب پی آئی اے شدید مالی مسائل کی وجہ سے اپنی وقعت کھوچکا ہے۔

مسلسل چار سال تک بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اسٹیل مل آخر کار 2015 میں ایک بیکار تنظیم کی حیثیت سے بند کردی گئی۔ پی آئی اے کا زوال 90 کی دہائی کے آخر میں اس وقت شروع ہوا جب اس کے اس وقت کے چیئرمین شاہد خاقان عباسی نے گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کے تحت ملازمین کی ایک بڑی تعداد سے جان چھڑا لی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف پی آئی اے کوچلایا بلکہ اپنی مہارت ، خلوص ، عزم اور وفاداری کی وجہ سے اسے بلندیوں تک لے کرگئے۔ یہ تمام لوگ بغیر کسی وجہ کے ادارہ سے نکال دیئے گئے جبکہ ان میں سے کچھ شاہین ایئر لائن اورکچھ غیر ملکی ایئر لائنز میں شامل ہوگئے اور باقی لوگ گمنامیوں میں کھوگئے۔

صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے جنرل ضیاءالحق نے پی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے دورے کے دوران اس کے اس وقت کے چیئرمین پی آئی اے ایئر مارشل نور خان کو مشورہ دیا کہ وہ ملازمین کی تعداد کم کرکے ادارے کو بوجھ سے آزاد کریں لیکن نور خان نے میری موجودگی میں (جیسا کہ میں پی آئی اے کا رپورٹر تھا اور نور خان کے بہت قریب تھا) جنرل ضیا کو جواب دیا کہ آپ کیوں برا نام کمانے اور لوگوں کو باہر نکالنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ ہم ایئر لائن میں آپ کے لئے بھی پیسہ کمائیں گے۔ ان کا جواب حقیقت پر مبنی تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ ادارہ فروغ پذیر اور متحرک ہے ۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اقدامات کے بعد ادارہ پستی کی طرف گامزن ہوا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیچے اور نیچے جاتا رہا،یہ ایک تباہی کی شروعات تھی۔

انہوں نے ملازمین کوجبری ریٹائرمنٹ پرادائیگی کے لئے بینک قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کیا اورسوئٹزرلینڈ ، ڈنمارک ، ہالینڈ ، سنگاپور ، جکارتہ میں اہم اسٹیشنوں کوبند کردیا ، قدرتی طور پر ایک ایئر لائن جو دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار کی جاتی ہے ، ایک مشق کا شکار ہوگئی۔ بینک کے قرضوں کی ادائیگی ایک ذمہ داری بن گئی اور آج ایئر لائن ایک عالمی نیٹ ورک ہونے کی بجائے کچھ منتخب اسٹیشنوں کی خدمت کرنے والی علاقائی ایئر لائن کی سطح پر آ گئی ہے۔

قومی ایئر لائن بہت زیادہ قرضوں کی زد میں ہے ، اس کا بیڑا 37 اے ٹی آر طیاروں پر مشتمل ہے۔ اس کے موجودہ چیف ایئر مارشل ارشد ملک ادارے کے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن یہ کام بہت زیادہ مشکل ہے اور اب جب کہ یورپی یونین نے اپنے ممبر ممالک کو پاکستان ایئر لائن کی خدمات لینے سے منع کردیا ہے تو اس ادارے کی بحالی نہایت مشکل دکھائی دیتی ہے۔

اسٹیل ملز کو70 ء کی دہائی کے وسط میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اور مقامی صنعتوں کے لئے اسٹیل اور دیگر اشیا کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ مسلح افواج کو ٹینکوں کی تعمیر کی ضرورت بھی یہیں سے پوری ہوتی تھی اور 2008 میں پاک اسٹیل 800 کروڑ روپے کے منافع میں تھی ۔

پرویز مشرف کے دور میں ریٹائرڈ کرنل افضل نے اس کی ذمہ داری سنبھالی اور مل نے ایک دن میں 200 کروڑ روپے کی شرح سے منافع ظاہر کیا۔ 2012 سے 2014 کے درمیان مالی پریشانی میں اترنے کے بعد اسے آخر کار 2015 میں بند کردیا گیا تھا۔

چین کے ساتھ تنازعہ کے بعد ہندوستان نے اسٹیل مل کے نیٹ ورک کا انتخاب کیا اور آج بھارت کے پاس 21 ادارے ہیں لیکن بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان کو دور آسٹریلیا سے لوہا درآمد کرنا پڑتا ہے اور شپمنٹ ، فریٹ انشورنس وغیرہ پر بڑے پیمانے پر خرچ کرنا پڑا۔

حماد اظہر کے مطابق پاک اسٹیل 11000 ایکڑ اراضی پر محیط ہے ، 2006 میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز اورکچھ نامور کاروباری افراد نے اسے 21 ارب روپے میں خریدا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اس معاہدے کو ختم کردیا کیونکہ یہ قیمت زمین کی قیمت سے کہیں کم تھی۔ پاکستان اسٹیل اب بند ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت ان اداروں کو بحال کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔

Related Posts