پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک میں جہاں عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے، وہاں حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں میں مزید اضافہ کر لیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے شدید عوامی تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں تقریباً 300 فیصد اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ گویا جنہیں عوام کی فلاح کے لیے کام کرنا تھا، وہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے سرگرم ہیں۔
حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ میں بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا لیکن یہ اتحاد عوام کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے لیے تھا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے حالیہ اجلاس میں، جہاں عام طور پر ہر مسئلے پر اختلاف نظر آتا ہے، وہاں ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے معاملے پر سب یکجا نظر آئے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں تمام جماعتوں کے نمائندوں نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ یقینی بنایا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہوں اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد ان کی تنخواہ 1 لاکھ 80 ہزار روپے سے بڑھ کر 5لاکھ 19 ہزار روپے ہو گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے 10 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کی تجویز دی گئی تھی، تاہم اسپیکر نے “ہمدردی” کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کم کر کے 5لاکھ 19 ہزار روپے کر دیا۔
اتنے میں تو بینک ٹھیکے پر مل جائے اور، نیشنل بینک کے صدر کی تنخواہ اور مراعات جانتے ہیں؟
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ تنخواہوں میں اضافے کے باوجود قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہیں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان سے کم ہوں گی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی بنیادی ضروریات کو ترس رہا ہے، وہاں عوامی نمائندے پہلے ہی لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں، مگر پھر بھی مزید اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق، تنخواہوں میں اضافے کا جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ گزشتہ 7 سال سے کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ مگر کیا کسی نے یہ سوال کیا کہ کیا عام پاکستانی کی تنخواہ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا؟ کیا غریب ملازمین، مزدوروں، اور کسانوں کو بھی وہی مراعات دی جا رہی ہیں جو ان “عوامی نمائندوں” کو حاصل ہیں؟
ایک طرف ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، مہنگائی عروج پر ہے، لوگ بجلی اور گیس کے بلوں سے پریشان ہیں، اور دوسری طرف ہمارے معزز ارکان اسمبلی اپنی مراعات میں اضافے کے لیے سرگرم ہیں۔ یہ فیصلہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ “نمائندے” عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب ہوئے ہیں یا صرف اپنی جیبیں بھرنے کے لیے؟