مسئلہ کشمیر پر اوآئی سی کا اجلاس طلب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیراعظم پاکستان عمران خان کی درخواست پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے او آئی سی کا اجلاس بلانے کی یقین دہانی کرا دی جس میں متحدہ عرب امارات، بحرین انڈونیشیا اورترکی کی شرکت بھی متوقع ہے، اجلاس آئندہ سال اپریل کے دوران اسلام آبا دمیں ہو گا۔ او آئی سی کے اجلاس کا سرفہرست ایجنڈا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، بھارت میں شہریت کے متنازع بل ہو گا۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد 148 روز بعد بھی مقبوضہ وادی میں معمولات زندگی مفلوج ہیں جبکہ مواصلاتی رابطے بھی منقطع ہیں اور سخت سردی میں کشمیری مشکلات سے دوچار ہیں۔فوجی محاصرے کی وجہ سے کشمیر ،جموں اور لداخ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں خوف ودہشت کا ماحول قائم ہے ۔ کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند جبکہ لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات کیلئے بھی مشکلات درپیش ہیں۔

کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد سے کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن سے مقامی معیشت کو تقریباً ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہو چکا ہے تاہم بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کاکہنا ہے کہ کشمیر میں تو حالات ‘مکمل طور پر معمول پر‘ ہیں۔

دوسری جانب یورپی پار لیمنٹ کے نائب صدرفابیو ماسیموکاستالدو نے کشمیرمیں ہونیوالے مظالم اورمتنازعہ بھارتی قانون کیخلاف پاکستانی موقف کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔چین ، ترکی اور ملائیشیا بھی مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔

کوالالمپور سمٹ کے بعد اسلامی سربراہی کانفرنس کا وزرائے خارجہ اجلاس خصوصی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔سعودی عرب نے کامیاب کوالالمپور سمٹ کے بعد او آئی سی کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس حوالے سے سعودی وزیر خارجہ نے حالیہ دورے میں وزیراعظم کو اعتماد میں لیا۔

آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن کے کم فعال کردار پر ملائیشیا، ترکی، انڈونیشیا، قطر، ایران سمیت دیگر مسلم ممالک کے تحفظات کے باعث ملائیشیا میں ہونے والی سمٹ کو متبادل پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

وزیر اعظم نے سعودی ولی عہد سے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی جس پر سعودی شہزادے نے اسلام آباد میں اوآئی سی کا اجلاس بلانے کی یقین دہانی کرادی ہے، اپریل میں ہونیوالا اجلاس وزرائے خارجہ کی سطح پرہوگا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ نہیں بلکہ اک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس پر پاکستان اوربھارت دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ او آئی سی نے کشمیر کے مسئلے پر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور قراردادودں کے سوا عملی اقدامات نہیں کیے۔

اوآئی سی اراکین امُت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کر نے کے بجائے اپنے اپنے مفادات کے لیے کام کرتے رہے جس سے تنظیم کی صلاحیت اور کارکردگی پر منفی اثر پڑااوراس پلیٹ فارم سے اسلامی ممالک کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکانہ تعلقات فروغ دیا جا سکا۔

اُمت مسلمہ کو کشمیر، روہنگیا، اویغور مسلمانوں سمیت اسلامو فوفیا جیسے کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے جن کے حل کے لیے او آئی سی کو محض فوٹو سیشنز یا قراردادوں سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنا ہونگے کیونکہ صرف قر اردادوں کی کوئی اہمت نہیں ۔ جب تک اوآئی سی کے رکن مما لک کے رویے میں تبد یلی نہیں آئے گی امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کبھی ختم نہیں ہونگے۔

Related Posts