نئی حکومت اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

برسوں سے امریکہ کی جیل میں قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی تاحال قید ہیں اور وطن عزیز میں انتخابات کے بعد نئی حکومت بننے والی ہے۔

انتخابات سے قبل سیاسی و مذہبی جماعتیں نشستوں کے حصول کیلئے سرگرم عمل رہتی ہیں۔یہ مرحلہ گوکہ اب گذر گیا اور جو صورتحال ہے وہ غور طلب ہی نہیں قابلِ توجہ بھی ہے۔ منتخب ہونے والوں کو عوام انتخابات سے قبل اپنے درمیان دیکھتے ہیں اور پھر طویل مدت تک وہ عوام کو کہیں دیکھائی نہیں دیتے ہیں۔ اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی، عوام سے کئے گئے وعدوں کو، ان کے کاموں کو، مسائل کو ایک جانب رکھ کر اپنی مصروفیات میں مگن رہتے ہیں، ملک کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
پھر یوں ہوتاہے کہ عوام کی تنگی کے ساتھ محنت و مشقت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اوروہ جفاکشی کے ساتھ یہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی جہت میں لگے رہتے ہیں۔
منتحب ہونے والوں سے ملک کا کیا حال ہوتا ہے؟ مہنگائی کتنی بڑھ جاتی ہے؟ ترقیاتی کاموں کی کیا صورتحال ہوتی ہے؟ داخلی وخارجہ پالیسیوں کا کیاحال ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی امن و امان کے کیا حالات ہوتے ہیں؟ ذرائع ابلاغ کیا دکھاتے اور ان پر مبصرین کیا سناتے ہیں؟ تعلیم وصحت کے ساتھ عوام کا ذریعہ آمدن کن کیفیات سے گذر رہاہوتا ہے؟ یہی نہیں، اسی طرح کے بے شمار سوالات کے اول تو اٹھانے والے کم ہی پائے جاتے ہیں اور اگر کہیں کسی پروگرام میں کسی محفل میں یا کسی چینل کے ٹاک شو میں اس حوالے سے بات آبھی کی جاتی ہے تو اچھا سوال کہہ کر جواب دینے کی زخمت نہیں کی جاتی۔ شاید نہیں بلکہ یقیناً ایسے ہی حالات کیلئے یہ شعر کارگر ثابت ہوتا ہے،
اخلاص، مروت، مہر و وفا یہ سب رسمی باتیں ہیں
سب ہی اپنی مستی میں خودی کی خاطر جیتے ہیں۔۔۔
تولامحالہ اپنی بات سے، باتوں سے مکرنے والے، مکرتے چلے جاتے ہیں اورعوامی مطالبے پہلے ذاتی مفاد میں پورا نہیں کرتے ہیں اور اگر کوئی معاملہ قومی سطح کا آجاتا ہے، جیسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تو اس قومی مفاد پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ سابق صدر پاکستان و سپہ سالار افواج جو کہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان ہی کے دور میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چند ہزار ڈالروں کے عوض بیچ دیا گیا تھا اور پھر جب وقت گذرنے کے ساتھ اس مظلوم کیلئے ایک آواز سے بڑھ کر مزید آوازیں اٹھائی جانے لگیں تو پھر اس کی رہائی کیلئے وعدے کئے جاتے ہیں، جنہیں بعدازاں پورا کرنے کی زخمت و کوشش نہیں کی جاتی ہے۔

تین بار اس قوم کے وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف صاحب جو کہ اب چوتھی بار بھی وزیر اعظم بننے کیلئے آئے تھے، انہوں نے ماضی میں اپنے گھر بلوا کراس قوم کی بیٹی کے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا تھا کہ جلد ہی احمد و مریم اپنی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کرینگے۔ نواز شریف ہی ان کو امریکہ سے باعزت رہائی دلواکر وطن عزیز لائیں گے۔ لیکن وہ وعدہ، صرف اک وعدہ ہی رہتا چلا آرہا ہے۔ اسی سابق وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز کو بھی اس بات کا احساس نہیں کہ اس کے ہمنام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیٹی مریم سے ہی مل کر اس کو تسلی دیں۔ اب جبکہ وہ مریم نواز صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے منصب پر آگئیں ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جاری جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ گوکہ مریم نواز نے قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے ایک بار بھی آواز نہیں اٹھائی ہے۔ اس کے باوجود انہیں چاہئے کہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کیلئے آنے والے اپنے والد جو نہیں بن پائے، ان کے وعدے کو ہی پورا کردیں۔ وزیر اعظم وہ نہ سہی، ان کا بھائی ہی سہی، لیکن قوم کی بیٹی کا یہ وعدہ تو پورا کیا جانا چاہئے۔

وطن عزیز کی اک اور بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی بھی ہے جو کہ سندھ صوبے کو اپنا سمجھتی ہے اور سندھ کی عوا م بھی اب تک صرف اس جماعت کو منتخب کرتی آئی ہے۔ آج تک پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے قوم کی بیٹی کے گھر جانا تو درکنار، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور احمد و مریم کو اپنے پاس بلوانے کی بھی زحمت نہیں کی ہے۔ بلاول ہاؤس شہر قائد میں ہے اور گلشن اقبال بھی اسی شہر میں ہے تاہم درد کو محسوس کرنے کیلئے احساس کا ہونا ضروری ہے۔ سابق صدر کے بیٹے بلاول بھٹو جو کہ سابقہ عارضی حکومت میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ دایاں نبھاتے رہے ہیں، انہوں نے بھی اپنے اس دور میں قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے کوئی قدم اٹھانا تو درکنار، آواز تک نہیں اٹھائی۔ اب جبکہ نئی بننے والی حکومت میں بھی بلاول بھٹو صاحب اہم وزارت سنبھالیں گے اور ان کے والد صاحب صدر پاکستان کی خواہش کو لئے آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں قوم کی جانب سے یہ سوال حق بجانب ہے کہ انہوں نے قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے اب تک کچھ بھی کیوں نہیں کیا؟؟؟

سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت اس وقت کس حال سے گذر رہی ہے، پوری قوم ہی نہیں، عالمی میڈیا اور اقوام عالم بھی جانتے ہیں۔ درپیش صورتحال سے قطع نظر ان کے دور حکومت میں بھی قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں لیا گیا۔ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں اب تک تنہا انتخابات نہیں جیت سکی ہیں۔ ہاں، اب عوام یہ بات بھی جان گئی ہے کہ وہ ہر بننے والی حکومت کا سہارا ضرور بنتی ہیں، ان کے وزیر بھی بنتے ہیں اور مشیر بھی تاہم وہ سب بھی قوم کی بیٹی کیلئے کچھ نہیں کر پائے ہیں۔
پوری دنیا کی عوام سوشل میڈیا کی اہمیت کو جان چکی ہے۔ اس سوشل میڈیا کے باعث کس قدر ہمت و حوصلہ افزائی کے ساتھ عزائم کی تکمیل کیلئے جدوجہد آگے بڑھ رہی ہے۔ ہر ذی شعور اب اس بات کو سمجھ گیا ہے۔ گذشتہ برس جب قوم کی بیٹی سے ملنے کیلئے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی امریکہ گئیں تو سب ہی یہ سن کر چونک گئے جب امریکی جیل انتظامیہ نے یہ کہا کہ جس کمرے میں ملاقات ہونا ہے اس کے دروازے کی چابی گم ہوگئی ہے۔ یہ صاف اور شفاف جھوٹ جس انداز میں بولا گیاوہ نہایت ہی قابل مذمت تھا، اس بات اور اس احساس کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ پاکستان سے ایک بہن اپنی دوسری مقید بہن سے ملنے آئی ہے اور اس کو یہ کہا جارہا ہے کہ ملاقات آج اس لئے نہیں ہوگی کیونکہ کمرے کی چابی نہیں مل رہی۔۔۔ کیا جذبات ہونگے قید میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بھی اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بھی۔ امریکہ نے جو کہ خود کو انسانی حقوق کا بڑا ترجمان سمجھتا ہے اور کہیں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے تو سب سے پہلے امریکی حکومت آواز اٹھاتی ہے۔ اس وقت ان کے جذبات اور احساسات کہاں چلے گئے تھے؟؟؟
بہرکیف، یہ سوشل میڈیا ہی کی قوت تھی کہ جب قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والوں نے منظم انداز میں امریکی جیل انتظامیہ کی اس حرکت پر آواز اٹھائی اور اس آواز ہی کے باعث ڈاکٹر فوزیہ کی اپنی بہن سے ملاقات ہوپائی۔ اس سوشل میڈیا کے ساتھ ہی عملی انداز میں اب تک ہرمنتخب حکومت کے سامنے قوم کی بیٹی کیلئے آواز اٹھائی جاتی رہی ہے، اب جبکہ نئی حکومت وجود میں آنے والی ہے اس لئے قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے زیادہ منظم انداز میں مہم کی صورت میں آواز اٹھائی جانی چاہئے۔ حکمرانوں کو انکے وعدے یا د دلانے چاہئیں۔ انہیں یہ احساس دلایا جانا چاہئے کہ وہ اب تو قوم کی مقید بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی دلوائیں۔

Related Posts