پاکستان میں تاجر کوئی نہیں، سب سیلز مین ہیں، ایاز میمن موتی والا کی خصوصی گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Nations that refuse to participate in politics are governed by inferior rulers: Ayaz Memon Motiwala

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی کی معاشی ترقی میں میمن برادری کا سب سے اہم کردار رہا ہے، کراچی میں کاروبار ہویا فلاحی کام ہر جگہ میمن برادری نمایاں نظر آتی ہے جبکہ ملک کی سیاست میں بھی میمن برادری کا اہم حصہ رہا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت ایاز میمن موتی والا ہیں جو کراچی میں نمایاں کاروباری شخصیت ہونے کے ساتھ سیاسی اور سماجی کاموں میں بھی پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔

ایم ایم نیوز نے ایاز میمن موتی والا سے کاروبار کا احوال، ملک کے حالات اور مستقبل کے حوالے سے ان کے خیالات جاننے کیلئے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

ایم ایم نیوز:آپ کاروبار ی شخصیت ہونے کے باوجود سیاسی میں کیوں آئے؟

ایاز میمن موتی والا: جو قومیں سیاست سے منہ موڑ لیتی ہیں ان سے کمتر حکمران ان پر راج کرتے ہیں، یہ ہزاروں سال پرانے حقائق ہیں جو کسی بھی معاشرے کے ایک شخص کو جمہوری نظام کا ایک فرد اور کاروباری شخص ہونے کے ساتھ یہ حق دیتا ہے کہ وہ ملکی سیاست میں اپنا فعال کردار ادا کرے اور دنیا کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرسکے۔

ایم ایم نیوز:پاکستا ن کے سیاسی نظام نے عوام کو کیا سہولیات دی ہیں ؟

ایاز میمن موتی والا: پاکستان میں ووٹ لینے کے بعد سیاستدان عوام کو مسائل کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں، ملک میں آج تک عوام کو 5بنیادی حقوق نہیں ملے، صاف پانی، صحت ، صفائی ، تعلیم اورروزگاردینے کے بجائے قوم کو خیرات، زکوٰۃ اور بھیک مانگنے پر لگادیا گیا ہے اور عوام کے حقوق کی پامالی کو دیکھتے ہوئے میں نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور بطور تاجر 5 سیٹوں پر ایک ساتھ الیکشن لڑنے کا اعزاز مجھے حاصل ہے۔

ایم ایم نیوز:کورونا وائرس کی وجہ سے تاجروں کو ہونیوالے نقصان کا ازالہ کیسے ممکن ہے ؟

ایاز میمن موتی والا: کورونا سے پہلے بھی پاکستان کے تاجر ملک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔تاجر اپنے پیٹ بھرنے تک تو ٹھیک لیکن جہاں بات پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی ہو تو کورونا کے بعد تاجروں نے جو مشکلات برداشت کی ہیں وہ نہایت تکالیف دہ ہیں۔

لاک ڈاؤن کے باعث ایک دکان بند ہونے سے اس سے جڑے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔کورونا کے بعد پوری دنیا میں بڑا معاشی دباؤ آیا ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ریاست نے تاجروں کو نقصان سے نکالنے اور دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ، یہاں ازالہ کرنے کیلئے ریلیف کے بجائے مزید پریشان کیا جارہا ہے۔

ایم ایم نیوز:نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہ منسوخ کرکے واپس جانے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ایاز میمن موتی والا: پاکستان کو تباہ کرنے اور قوم کو ذہنی مریض بنانے کیلئے عالمی طاقتیں اپنا پورا زور لگارہی ہیں، کل جب افغانستان سے اپنی فوج اور شہریوں کو نکالناتھا تو پاکستان ان کیلئے محفوظ ملک تھا لیکن اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ایم ایم نیوز:پاکستان کی معیشت کی ترقی میں تاجر کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟

ایاز میمن موتی والا: پاکستان میں تاجر تو کوئی ہے ہی نہیں، سب کے سب سیلز مین ہیں جو دنیا کا مال لاکر یہاں فروخت کرتے ہیں، معاشروں کی تقدیر تاجر بدلتے ہیں سیلز مین نہیں اور بدقسمتی سے ہم صرف بیرونی قوتوں کے سیلزمین بن چکے ہیں۔

ایم ایم نیوز:حکومت ہمیشہ ٹیکس چوری کا شکوہ کرتی ہے ،کیا واقعی تاجر ٹیکس نہیں دینا چاہتے ؟

ایاز میمن موتی والا: دنیا کا کوئی بھی ملک ہو اس کے عوام نے کبھی یہ سوچ کر ووٹ نہیں دیا کہ آپ کامیاب ہوکر مجھے برباد کردیں۔ ہمارے ملک میں ہر چیز الٹ ہے، ریاست جو ٹیکس لیتی ہے اس کے عوض لوگوںکو کیا دیتی ہے۔کیا پاکستان میں اربوں کھربوں کا قرضدار ہوگیا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے، آج تک ملک لوٹنے والے ملزم ہی ہیں کوئی مجرم نہیں ہے۔

آپ ٹیکس لیں لیکن آپ اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کریں۔ عوام کو بنیادی مسائل سے نجات دلائیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

ایم ایم نیوز:ڈالر کی قیمت میں اضافے سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوتا ہے ؟

ایاز میمن موتی والا: براعظم افریقہ کا مسلمان ملک صومالیہ لینڈ 1992 میں آزاد ہواجس کے پاس افریقی خطے میں تیسرے نمبر پر وسائل ہیں اور مسلمان ملک ہے لیکن رنگ کالا ہے ۔وہاں ڈالر کی قیمت 14500روپے ہےاور وہاں کے لوگوں کو ہفتے میں ایک روٹی کا نوالہ میسر آتا ہے لیکن وہ بھی زندہ ہیں تو ہم تو ابھی ایک 170 تک پہنچے ہیں، 500 پر بھی زندہ رہیں گے ، ایک ہزار پر بھی جیتے رہیں گے۔

ہم ہر چیز کیلئے دوسروں کے محتاج ہیں اور جب تک دوسروں پر انحصار کرینگے تب تک ہماری معیشت کبھی بہتر نہیں ہوسکتی۔ ڈالر صرف روپے پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ دنیا کی ہر کرنسی کو متاثر کرتاہے اور ہم جو زرمبادلہ کماتے ہیں اور پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے جس سے پاکستان کی معیشت پردباؤاور بیرونی قرضوں میں اضاف ہوتا ہے۔

ایم ایم نیوز:کراچی کو کنکرنیٹ کا جنگل بنانے کا ذمہ دار کون ہے ؟

ایاز میمن موتی والا: کراچی پاکستان کا دل ہے اور جب دل پر چربی آجائے تو انسان کتنا بھی فربہ کیوں نہ ہو وہ صحت مند نہیں کہلاتا، کراچی پاکستان کا دل تھا لیکن چربی، کولیسٹرول اور لاتعداد بیماریاں کراچی کو دینے کیلئے یہاں تجاوزات کی بھرمار کردی گئی۔

بلڈرز خود تو اربوں پتی بن گئے لیکن شہر تباہ ہوگیا۔کراچی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تباہ کیا گیا اور ملکر کر لوٹنے کیلئے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بناکر دیگر شہروں سے لوگوں کو لاکر اہم عہدوں پر فائز کیا گیا جنہوں نے کراچی کی تباہی میں کلیدی کردار ادا کیا اور انہوں نے اپنی تجوریاں بھرکر کراچی کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا۔

ایم ایم نیوز:کیا کراچی کے مسائل کے حل کیلئے علیحدہ صوبہ بنانا ضروری ہے؟

ایاز میمن موتی والا: مسائل کے حل کیلئے صوبہ نہیں نیت کی ضرورت ہے، ہم نے چار صوبوں کو تباہ کردیا ہے تو مزید صوبے بنانے سے کیا ہوگا؟، صوبے بنانا انتظامی معاملہ ہے، افغانستان کی آبادی پاکستان سے کئی گنا کم ہے لیکن صوبے زیادہ ہیں حتیٰ کہ وادی پنج شیر کو بھی صوبے کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں مسئلہ نیتوں کا ہے صوبوں کا نہیں۔

ایم ایم نیوز:ملکی ترقی کیلئے نوجوان نسل کیسے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے؟

ایاز میمن موتی والا: نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور جب تک نوجوان ایوانوں  میں نہیں جائینگے ملک کی تقدیر نہیں بدلے گی لیکن پاکستان میں نوجوانوں کی ذہن سازی کے بجائے انہیں سماجی کاموں پر لگاکر وقت ضائع کیا جارہا ہے۔

دنیا اپنے نوجوانوں پر سرمایہ کاری کرتی ہے تاکہ وہ نوجوان مستقبل میں اہم کارنامے انجام دیں لیکن ہم نے اپنے نوجوانوں کو پودے لگانے پر لگادیا ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کی درست سمت میں تربیت کرنا ہوگی تاکہ یہ نوجوان پاکستان کی تقدیر بدلنے کیلئے اپنا کردار کرسکیں۔

Related Posts