ڈیپریشن سے بچئے!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سخت سردیوں کے دن تھے، شدید دھند پھیلی ہوئی تھی اور ایسی ہی ایک سرد شام میں مجھے میرے دوست کی کال آئی کہ ایک میت ہوگئی ہے اُس میں چلنا ہے ، میں نے بھی حامی بھرلی اور اس کے ساتھ چلا گیا ، وہاں جاکر پتہ کہ مرنے والا 25سال کا نوجوان تھا اور ایک بیٹی کا باپ تھا، جنازے سے فارغ ہوئے تو اس بات کا علم ہوا کہ مرنے والے نے خودکشی کی تھی، یہ سن کر مجھے حیرت کے ساتھ صدمہ بھی پہنچا، میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہوگا کہ یہ نوجوان ایک بیٹی ہوتے ہوئے بھی خودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا۔

جب ماجرا معلوم کیا تو پتہ چلا کہ لڑکے نے محبت کی شادی کی تھی، جبکہ لڑکے کی والدہ اور بہنوں کو لڑکی بالکل بھی پسند نہیں تھی اور دن رات لڑکے کو طنز اور طعنے سننے کو ملنے تھے، کہ یہ کس لڑکی سے شادی کرلی؟، لڑکے کی ماں اور بہنوں کی جانب مسلسل طلاق دیئے جاتے تھے ،لڑکے نے اپنی ماں اور بہنوں کو بہت سمجھایا کہ میں ایک بیٹی کا باپ ہوں اور میری بیوی بھی کسی کی بیٹی ہے، میں کیوں اس کو طلاق دوں اور اپنی بیٹی اور بیوی کو اپنے سے دور کرلوں؟

لڑکے نے بہت کوشش کی اپنی ماں کو سمجھانے کی لیکن اس کی ماہ اور بہنوں کے سمجھ میں نہ آیا اور یوں وہ لڑکا ذہنی تنائو یعنی ڈپریشن میں دھنستا چلا گیا اور آخر کا اس کا نتیجہ اس کی زندگی کے خاتمے پر ہوا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈپریشن آج کے دور کی بہت بڑی بیماری بن چکی ہے، ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ اللہ سے دوری ہے اور دوسری بڑی وجہ جو نہ کہتے ہوئے کہنی پڑ رہی ہے وہ ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں، آج کے دور میں آپ کسی سے بھی بات کرلیں وہ آپ کو ڈپریشن کا شکار ضرور ملے گا۔

آج کے اس دور میں اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو اس کی وجہ ڈپریشن، گھریلو پریشانیاں،اپنوں کے دیئے جانے والے طنز و طعنے اور مسلسل دی جانے والی اذیت ہی ہوتی ہے۔
ایسے میں ہمیں چاہئے کہ اپنوں پر خاص توجہ دیں اور کوئی پریشان دکھائی تو فوری طور پر اس سے بات کریں اور معلوم کریں کہ اسے کیا پریشانی ہے؟، اسے احساس دلائیں کہ وہ اکیلا نہیں ہے، کیونکہ ایسے مشکل وقت میں آپ کی تھوڑی سی ہمدردی بھی کسی کی جان بچا سکتی ہے۔

 انسان  آج کل اس قدر مصروف ہوگیا ہے کہ اسے اپنوں کو دینے کے لئے بالکل بھی وقت نہیں ہے، آپ کے پیار کے دو بول کسی کو بڑا فیصلہ لینے سے روک سکتے ہیں، ڈپریشن کا شکار شخص کو اس بات کا یقین دلائیں کہ زندگی میں ہو جانے والی کوئی بھی غلطی، ناراضگی یا لڑائی اس حد تک نہیں ہوتی کہ اُس کی خاہر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا جائے، کوشش کی جائے کہ معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے، آپ نے یہ بھی سنا ہوگا کہ اگر آپ نے کسی ایک انسان کی جان بچائی تو آپ نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔

تو ہم اگر چاہیں تو کسی کو خودکشی کرنے سے روک سکتے ہیں، آپ چاہے ڈپریشن کے جس بھی لیول پر پہنچ جائیں لیکن یہ نہ بھولیں کہ آپ کا اللہ رب العزت آپ کے ساتھ ہے، اس حوالے سے مجھے سورۃ توبہ کی وہ آیت یاد آگئی کہ ’’ کافی ہے مجھے اللہ، نہیں معبود سوائے اُس کے، اُسی پر میرا توکل ہے اور وہ رب ہے عرش عظیم کا‘‘ کیا آپ حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر بھول گئے ، کیا آپ حضرت امام حسینؑ کا صبر بھول گئے؟، وہ ڈپریشن میں کیوں نہیں گئے تھے تو اس کا سیدھا سا جواب یہی ملے گا کہ انہوں نے اللہ پر توکل کیا تھا۔

انہوں نے اپنے رب پر بھروسہ کیا تھا، تو ہمیں بھی صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے، ذہنی تناؤ زیادہ بڑھ رہا ہے تو پروردگار کو سجدہ کرکے دیکھیں اُس سے سکون قلب کی دعا کریں بے شک وہ بڑا رحیم و کریم ہے، ہم سب کی دعائوں کو ضرور قبول فرمائے گا، آج کے دور میں رشتوں کے علاوہ دولت کی بیسکونی بھی ڈپریشن کا باعث بن رہی ہے ، کوئی اپنی اُمیدوں کے ٹوٹ جانے کا رونا روہا ہے تو کوئی تلخ لہجوں کی کاٹ سے زخموں سے چور ہورہا ہے۔ میں سمجھتا کہ ڈپریشن کا واحد اللہ پر توکل کرلیں اپنے معبود پر بھروسہ کرلیں اور ایک دوسرے کو معاف کرنا شروع کردیں، ایک دوسرے سے محبت بانٹیں تو یقیناً ڈپریشن کا خاتمہ ممکن ہوجائے گا۔

Related Posts