جوبائیڈن کی فتح اور پاکستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

رواں برس صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے جو بائیڈن 20 جنوری کو امریکا کے 46ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ قبل ازیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے امریکا کہلانے والی خارجہ پالیسی کے تحت امریکا کو جنگِ عظیم دوم سے قبل کی بند گلی میں پہنچا دیا تھا۔

جو بائیڈن سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ خارجہ معاملات میں زیادہ روایتی زاویہ اپناتے ہوئے وسیع المقاصد تنظیموں اور امریکا کی عالمی پوزیشن اور اتحادیوں کے حوالے سے بہتر پالیسیاں اپنائیں گے۔

اگر ایسا ہوا تو پاک امریکا تعلقات کا کیا ہوگا؟ جو بائیڈن کا اقتدار حاصل کرنا دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بنیادیات کو تبدیل کرتا دکھائی نہیں دیتا جس میں مفادات اور فوری نوعیت کے معاملات کو اہمیت دی جاتی ہے تاہم اس سے پاکستان کو ایسے مواقع حاصل ہوں گے کہ وطنِ عزیز امریکا سے اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات کو بہتر بنا سکے، خصوصاً یہ بات افغان امن عمل پر زیادہ صراحت سے نافذ ہوتی دکھائی دیتی ہے جس کے تحت امریکا افغانستان سے اپنی فورسز واپس بلا رہا ہے اور خطے میں اپنے مفادات کی نئی تعریف وضع کرتا نظر آتا ہے۔

تقریباً 20 برس تک افغانستان میں امریکا کی جنگ نے پاک امریکا تعلقات کی شکل تبدیل کرکے رکھ دی۔ ایسے وقت پر جب یہ فضا تبدیل ہوتی نظر آتی ہے، وائٹ ہاؤس میں بائیڈن کی موجودگی سے پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس سے امریکا سے پاکستان کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوں گے جن کی بنیاد سیاسی و اقتصادی مفادات پر ہوگی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن پاکستان کو بہتر سمجھتے اور جانتے ہیں، انہوں نے امریکی نائب صدر کی حیثیت سے متعدد مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ کیری لوگر برمن ایکٹ 2009ء کیلئے سینیٹر جان کیری کے ہمراہ بڑے قانون سازوں میں سے ایک رہے، جس کے تحت پاکستان کو 2010ء سے 2014ء کے درمیان 1 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی سالانہ معاونت حاصل ہوئی۔

پھر بھی ٹرمپ کے رویے کے برخلاف جو بائیڈن زیادہ انسانی ہمدردی رکھتے ہیں اور مسئلۂ کشمیر سمیت دیگر اہم امور پر برصغیر کی اہم معلومات رکھتے ہیں کیونکہ وہ 2 بار امریکا کے نائب صدر رہے اور پاک بھارت تعلقات اور ایٹمی طاقت رکھنے والے ہمسایوں میں کشیدگی کے بارے میں جانتے ہیں، انہیں امریکی مسلمانوں اور سیاہ فام افراد نے بھی ووٹ دے کر صدر منتخب کیا ہے اور فطری طور پر انہیں اپنے ایسے ‘قرضوں’ کی ادائیگی کیلئے تیار ہونا چاہئے۔

یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ امریکا میں آج بھی بے یقینی کی فضا قائم ہے کیونکہ صدر ٹرمپ 3 نومبر کے صدارتی نتائج تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ تمام حقائق مدنظر رکھتے ہوئے یہ الگ بات، کہ 2020ء کے انتخابات میں قابلِ ذکر ریاست جارجیا رہی جس نے قبل از انتخابات سب سے بڑا ڈرامہ تخلیق کیا۔ یہ ری پبلکن کی قابلِ بھروسہ ریاست تھی اور اچھے ووٹرز نے بنیاد پرست ڈیموکریٹ حکمرانوں کو نکال باہر کیا جو ریاست پر سول وار کے وقت سے حکمرانی کر رہے تھے۔

سن 2018ء میں ا سریاست نے اسٹیسی ابرامز کو گورنر کے طور پر تقریباً منتخب کر لیا تھا جو اتفاقیہ طور پر ابھی تک جیت نہیں پائیں اور برائن کیمپ ابھی تک گورنر کے عہدے پر فائز ہیں۔ بے شک وہ ہار گئیں، لیکن جیت سے قربت نے ڈیموکریٹس کو یہ امید دلا دی کہ یہ ریاست جنگ کا بہتر میدان ثابت ہوسکتی ہے۔

کچھ اسی طرح کا معاملہ سن 2020ء میں رہا جب جارجیا سابق نائب صدر جو بائیڈن کیلئے غیر سرکاری طور پر جیت کا میدان ثابت ہوئی لیکن ووٹوں کا فرق 13 ہزار سے کم رہا۔ جارجیا نے قومی دھارے میں اپنی اہمیت برقرار رکھی کیونکہ یہ سطور لکھتے وقت جارجیا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی جاری ہے اور یہ ایسی ریاست ثابت ہوسکتی ہے ٹرمپ کی جھولی میں دوبارہ گر سکتی ہے۔ تاہم یہ اکیلی ریاست بائیڈن کے الیکٹورل ووٹوں کے فرق کو ختم نہیں کر پائے گی۔

قومی توجہ پانے کیلئے اگر یہ بات بھی کافی نہ و تو جارجیا وہ ریاست بھی ہے جہاں امریکا کے سینیٹر ڈیوڈ پرڈیو اور کیلی لوفلور 2020ء کے انتخابات میں آگے آئے تھے۔ ڈیوڈ پرڈیو عمومی ری الیکشن اور لوفلور خصوصی انتخابات کے بعد آگے آئے اور سینیٹر جونی آئزیکسن کی نشست پر کی جنہوں نے بیماری کے باعث ریٹائرمنٹ لی۔

جارجیا کے انتخابی قوانین کے حوالے سے صورتحال مزید دلچسپ بنانے کیلئے امیدواروں کو ایک واضح اکثریت حاصل کرنی پڑتی ہے یا چوٹی کے ری پبلکن یا ڈیموکریٹ کے درمیان ایک رن آف سے گزرنا پڑتا ہے۔عام انتخابات کے کسی بھی امیدوار کو 50 فیصد ووٹ نہیں ملے ، اس لیے 5 جنوری 2021ء کو ایک رن آف شیڈول کیا گیا ہے۔

لیکن زیادہ تر سیاسی پنڈت جنوری میں بایئڈن کے حلف کے متعلق زیادہ پر اعتماد ہیں۔ وکلاء عدالتوں میں ٹرمپ کی جیت سے امیدیں وابستہ کر رہے ہیں لیکن پنسلوانیا کے جج نے پہلے یہ ٹرمپ کی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی اپیل خارج کردی ہے۔ دوسری ریاستوں سے بھی ایسے ہی نتائج کی توقع کی جارہی ہے جہاں ٹرمپ نے نتائج کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔

نو منتخب صدر جو بائیڈن کو 40 سال پرانے مسئلۂ افغانستان کو حل کرنے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اسی طرح ان کا رویہ ایران کیلئے بھی مختلف ثابت ہوسکتا ہے جہاں ٹرمپ نے حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ درحقیقت امریکی بحری بیڑہ پہلے ہی ایرانی پانیوں میں مٹر گشت کرتا پایا گیا تھا۔

دوسری جانب جو بائیڈن یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر امریکا کی اقتصادی ترقی پر توجہ دینی ہے تو افغانستان میں بچ رہنے والے 8 ہزار فوجیوں کو واپس بلانا ضروری ہے جو کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کی بے سروپا پالیسیاں جھیلتے رہے ہیں۔ امریکی بحری بیڑے کو ایرانی پانیوں سے واپس بلانا بھی ایک اہم اقدام ہوگا۔

پاکستان کے بارے میں یہ کہنا اہم ہے کہ بائیڈن کا انتخاب اور وائٹ ہاؤس میں بطور صدر قیام اگر پاک امریکا تعلقات میں کوئی بڑا فرق پیدا نہ بھی کرسکا تو یہ تعلقات کسی نہ کسی حد تک بہتر ضرور ہوں گے کیونکہ بائیڈن نے اپنی فاتحانہ تقریر میں حضورِ اکرم ﷺ کی ایک حدیث کا حوالہ دیا تھا اور یہی بات انہوں نے ایک اور موقعے پر دوبارہ بیان کی۔

حدیث کا حوالہ امریکا کے نومنتخب صدر بائیڈن کے لبوں سے سننا ان کا اسلام کی طرف جھکاؤ ظاہر کرتا ہے جس کا مسلمانوں کیلئے بہت واضح اور گہرا مطلب ہے۔ تاہم یہ غور کرنا ابھی باقی ہے کہ پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا بائیڈن کے روئیے میں فرق پیدا کرے گا یا نہیں تاہم پاک امریکا تعلقات کی بہتری زیادہ تر تجزیہ کاروں کے مطابق ضرور ہوگی، قصہ مختصر، بایئڈن سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان کیلئے کہیں بہتر ثابت ہوسکتے ہیں۔ 

Related Posts