آئی ایم ایف کا بجٹ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گزشتہ روز وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک مضحکہ خیز دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان مالی بحران سے نکل آیا ہے، اس لیے معاشی ایمرجنسی کے اعلان کی ضرورت نہیں۔

شہباز شریف حکومت کی جانب سے یکے بعد دیگرے دو بار ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام کو بحال کرے گا یا نہیں، اس کا تاحال سراغ نہیں مل سکا۔ سب سے پہلے 15 روز کے دوران حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں سب سے زیادہ اضافہ کیا اور پیٹرول کو 209 روپے فی لٹر کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا۔ مخلوط حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ پیش کرنے سے چند روز قبل ایک اور اضافے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔

جہاں شہری آسمان چھوتی مہنگائی اور انتہائی مہنگے پیٹرول کی قیمتوں کے اثرات سے دوچار ہیں، حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنے اور ساتھ ہی ساتھ عوام کو بھی کچھ نہ کچھ ریلیف مہیا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ حکومت اب بھی اپنے ووٹرز کو برقرار رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ 

بجٹ سے قبل حکومت نے بیل آؤٹ پروگرام کو بحال کرنے کے لیے تمام ایندھن اور بجلی کی سبسڈی ختم کرنے کا سخت فیصلہ کیا۔ آئی ایم ایف مزید مالیاتی اقدامات کیلئے حکومت کے گلے کا پھندا بنتا جارہا ہے جبکہ عالمی معیشت بھی شدید مندی کا شکار ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نیا آنے والا بجٹ اب تک کا مشکل ترین بجٹ کہا جاسکتا ہے۔ 

مخلوط حکومت اقتدار سنبھالنے کے صرف ایک دو ماہ بعد ہی بجٹ پیش کر رہی ہے۔چاہے اس کیلئے پی ٹی آئی پر کتنی ہی الزام تراشی کیوں نہ کی جائے، تاہم حکومت کو مہنگائی کے نتائج کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔ مشکل فیصلے کرکے کریڈٹ لینے والی حکومت تاریخی مہنگائی کے باعث عوام کی تنقید کا نشانہ بھی بنی ہوئی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کو راضی کرنے کی کوئی بھی کوشش آئندہ انتخابات میں جیت کی امید کو متاثر کرسکتی ہے جبکہ مہنگائی اور آئی ایم ایف سے ڈیل میں توازن برقرار رکھنا ہی موجودہ حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج نظر آتا ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں سے حاصل کیے گئے اشارے یہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا بجٹ عوام دوست کی  بجائے آئی ایم ایف کا بجٹ ہوگا۔ حکومت کو بجٹ میں کفایت شعاری کے اقدامات کا اعلان کرنا ہو گا۔ حکومت کے الاؤنسز اور دیگر مراعات میں کمی ایک خوش آئند فیصلہ ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ امدادی پروگراموں کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں گے؟ کیا حکومت واقعی آئی ایم ایف کا بجٹ ہی پیش کرنے والی ہے؟

Related Posts