چیئرمین ایچ ای سی اور تعلیمی نظام پر منڈلاتی بلائیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمارے خطے میں تعلیم کا فقدان رہا ہے مگر جس نے تعلیم پائی وہ غلامی سے نجات پا گیا اورجو جس قدر علم حاصل کرتا ہے وہ اسی قدر خَشِیَت و عاجزی پاکر علم کو بانٹنے کی راہ پر ہوتا ہے کیونکہ اسے شعور مل چکا ہوتا ہے، جس طرح بیمار کے بجائے ڈاکٹر بیماری کی تشخیص کے بعد اس کا علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کی غرض بیمار کی کوتاہی کے بجائے اس کے علاج پر مرکوز ہوتی ہے ،ویسا ہی کچھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے بھی تعلیم کے حوالے سے کیا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی نظام پر منڈلاتی بلائیں ان کے سامنے پیش ہو گئی ہیں۔

مملکت خدا داد میں اہل فکر و دانش کی قدر بروقت کے بجائے بے وقت کی جاتی ہے ۔ لمحوں کی اس خطا کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے ، دنیا کا نظام تعلیم ہم سے  کوسوں میل دور ترقی کر گیا مگر پاکستان کی بڑی جامعات اپنے زعم میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بلیک کرنے پر آ جاتی ہیں ،پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کا پشتی بان ادارے کا سربراہ اس وقت بلیک میلنگ کی زد پر ہے ، حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں؟

ڈاکٹر طارق بنوری مئی 2018 کو 4 سال کے لئے چیئرمین HEC تعینات کئے گئے ، موجودہ حکومت نے ادارے کی خود مختاری کو آن واحد میں جھٹکا اور ترمیم لا کر چیئرمین کو ہی ہٹا دیا ، ایچ ای سی آرڈیننس 2002 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چند ترامیم کی گئیں اور پھر 27 مارچ 2021 کو طارق بنوری کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ، 18 جنوری 2022 کو سپریم کورٹ نے طارق بنوری کو ان کے عہدے پر بحال تو کر دیا مگر تعلیم دشمن عناصر کو عدالتی فیصلہ کسی صورت نہیں بھایا اور یوں مذکورہ عناصر فیصلے کے خلاف عدالت پہنچ گئے۔

طارق بنوری کی دوبارہ تعیناتی سے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ ڈاکٹر طارق بنوری کو عہدے سے ہٹائے جانے کا جتنا دورانیہ گزرا ہے کیا انہیں وہ دورانیہ ملے گا یا ملنا چاہئے؟ یقینا ًیہ اہم سوال ہے جس پر قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ ماضی میں اس طرح کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ کسی افسر کو اگر عہدے سے ہٹایا گیا اور جتنا عرصہ وہ عہدے سے الگ رہے، ان کی دوبارہ تعیناتی کے بعد اتنا عرصہ ان کو مزید کام کرنے کا وقت دیا جاتا رہا ہے، جیسا کہ پولیس کی دنیا کا معروف نام شعیب سڈل بھی اس کی بہترین مثال ہے۔

اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں موجود ہیں جبکہ شعیب سڈل کواس مدت کے لیے اضافی وقت دیا گیا تھا جو انہوں نے ملازمت سے ہٹ کر گزاری تھی، قواعد کے تحت، اگر کسی کو ملازمت سے ہٹا دیا جاتا ہے لیکن بعد میں عدالتوں کے ذریعے اسے بحال کر دیا جاتا ہے تو تنخواہیں و مراعات دینا عام روایت ہے۔ اسی طرح ایک اہم کیس غلام یزدانی ملک اور ان کے ایک اور ساتھی کا بھی ہے جنہیں ذوالفقار علی بھٹو نے 70 ء کی دہائی میں برطرف کیا تھا لیکن عدالت نے انہیں طویل عرصہ بعد 05-2004 میں نہ صرف بحال کیا تھا بلکہ پیچیدہ حسابات کر کے انہیں چند گریڈوں میں ایکس پوسٹ فیکٹیو ترقیاں بھی دی تھیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈاکٹر طارق بنوری کو وقت مل جاتا ہے تو کیا اعلیٰ تعلیمی نظام پر نظریں گاڑھ کر بیٹھی بلائیں ٹل جائیں گی؟ شاید ایسا نہ ہو سکے کیونکہ  موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے ایسا شاید ممکن نہیں ہے۔  اگر وائس چانسلر کی تعیناتی کرنے والی سرچ کمیٹی ہی نالائق و متنازعہ لوگوں پر مشتمل ہو تو وائس چانسلر کیونکر غیر جانبدار ہونگے؟ سندھ بھر کی جامعات میں اکثریت سندھ حکومت کے من پسند وائس چانسلرز کی ہے جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وائس چانسلرز کی تعیناتی میں ایسے شخص کا نام ہے جس نے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کیلئے اتنا بجٹ مانگا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اساتذہ کے ناموں کی تختیاں سونے سے لگیں گی۔

طارق بنوری مئی 2022 میں جائیں یا جولائی 2023 میں، مگر اعلیٰ تعلیم کے اس اہم ادارے کا سیاسی نظام سے پاک ہونا ضروری ہے۔ سیاسی مداخلت کو روکنے کے لئے ملک کے چند ایسے سائنسدانوں کے ڈیرے ایوانوں سے دور کرنا ہونگے جن کے کارناموں کی فہرست کیلئے درزی کا فیتہ کم پڑ جائے مگر ان کی پوری زندگی میں سوائے حاکم وقت کے مشیروں کے کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہو گا، ایوانوں کےقریب پائے جانے والے علما کو جس طرح برا جانا گیا ہے ویسا ہی ایوانوں کے قریب پائے جانے والے سائنسدان بھی برے ہی تصور کئے جاتے ہیں۔

Related Posts