تباہ کن حکومت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پرانے وقتوں میں اقتدار کی لگام وزیر اعظم یا صدر کی بجائے بادشاہوں اور قبائلی سرداروں کے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہتے وزیر یا مشیر مقرر کرتے اور جسے چاہتے کسی فضول سی بات پر بھی قتل کروادیا کرتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔

یہ دور ہم انسانوں پر صدیوں تک قائم رہا اور اگر برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے تو مغلیہ دورِ حکومت تک بادشاہی رائج تھی یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہوا کرتا تھا۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے حملہ کیا اور برصغیر اس کی نوآبادیات بن گیا۔

آگے چل کر 1857 میں جنگِ آزادی لڑی گئی لیکن اس سے بات نہ بنی تو 1940 کی دہائی میں شدو مد سے شروع ہونے والی تحریکِ آزادی نے زور پکڑا اور 7سال کے مختصر عرصے میں بغیر ہتھیار اٹھائے دو ممالک آزاد کرا لیے گئے جو پاکستان اور بھارت تھے۔

ویسے تو بھارت اور پاکستان کی کہانی الگ الگ ہے تاہم ظالم اور مظلوم اور طاقتور اور کمزور کا اصول دونوں ممالک میں ایک ہی طرح کام کرتا ہے۔ یہاں آمروں نے تو وہاں جواہر لال نہرو نے طویل عرصے حکمرانی کی اور جمہوریت کو موقع نہیں مل سکا۔ 

آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت پر پاکستانی قوم تنقید تو ضرور کرتی ہے لیکن اندر سے ہمیں بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ بھارت کے عوام ہماری ہی طرح مظلوم ہیں۔ شرحِ خواندگی 74.04فیصد بتائی جاتی ہے مگربعض سیاسی رہنماؤں کے بیانات کے مطابق 60فیصد لوگ تعلیم سے محروم ہیں جو بڑا ظلم ہے۔

پاکستان میں بھی تعلیم کا حال بھارت سے کچھ مختلف نہیں۔ یہاں بھی جاگیرداروں اور وڈیروں نے تعلیمی اداروں کو اپنی اوطاقوں اور گائے بھینس کے باڑوں میں تبدیل کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ شرحِ خواندگی 62.3فیصد ہے تاہم حقیقی شرح کیا ہے، اس سے ہم خوب واقف ہیں۔

کہنا یہ مقصود ہے کہ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے متعدد پسماندہ یا ترقی پذیر کہلانے والے ممالک میں جو حکومت آئی، وہ تباہ کن رہی اور عوام کا صرف اور صرف استحصال ہی کیا گیا۔ جمہوریت کا مطلب وہ کبھی نہیں لیا گیا جو بتایا جاتا ہے۔

ماہرینِ سیاسیات کہتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی ایسی حکومت ہے جو عوام منتخب کریں اور عوام کیلئے ہی کام کرے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔ یہاں حکمران اپنی مرضی سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہی کام کرتے ہیں۔

عوام کے حقوق کا راگ تو بہت الاپا جاتا ہے لیکن انہیں بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔ حکمرانوں کا بس نہیں چلتا کہ سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیں اور موجودہ دور میں پاکستان  میں تنخواہ داروں پر عائد کیا گیا ٹیکس اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔

کاروباری افراد کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اور اگر ان پر ٹیکس لگایا بھی جائے تو وہ اپنی فیکٹریوں میں بننے والے سازو سامان کو مہنگا کرکے وہی بوجھ غریبوں پر منتقل کردیتے ہیں۔ ایسی ہی بے شمار مثالوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ متعدد ممالک میں آج بھی جنگل کا قانون نافذ ہے۔

کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ موجودہ دور کے فرعونوں کو سمجھنا ہوگا کہ عوام کے حقوق کو تحفظ تمہارے بنائے ہوئے قوانین نے فراہم نہیں کیا بلکہ اس کی ضمانت 1400 سال قبل زمین پر اترنے والے قرآن نے فراہم کردی تھی۔

آج بھی اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر جو بنیادی انسانی حقوق نظر آتے ہیں، ان کا شعور بنی نوع انسان کو اسلام نے عطا کیا۔اسلام نے اپنے آغاز سے ہی ایمان لانے والوں کو نیکی، عدل و انصاف اور طاقت کے درست استعمال کا درس دیا جس کی بے شمار مثالیں دستیاب ہیں۔

سورۂ نساء کی آیت نمبر 135 میں ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقیناً خوب باخبر ہے۔

Related Posts