افغان امن عمل میں پیشرفت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وطنِ عزیز پاکستان پوری طرح یہ سمجھتے اور جانتے ہوئے بھی کہ جنگ زدہ افغانستان میں امن کی بحالی ایک تین طرفہ تنگ رسی کی چہل قدمی ثابت ہوگی جس کے نتائج برآمد ہونے میں وقت لگے گا، ایک واضح مقصد کے حصول کیلئے اپنی کاوشوں پر کاربند رہا۔ بعض اوقات یہ بات مضحکہ خیز لگنے لگتی تھی کیونکہ صورتحال کو خراب کرنے والے بھی موجود تھے، مثال کے طور پر بھارت کی جانب سے پاکستان کی راہ میں حائل رکاوٹیں اور طالبان گروہوں کی آپس کی لڑائیاں وغیرہ تاہم اس کے باوجود افغان امن عمل میں بہتری پیدا ہوئی ہے جو واقعتاً قابلِ مسرت ہے۔

گزشتہ تاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے یہ بات شروع سے ہی ثابت ہوچکی تھی کہ افغان امن عمل آسان ثابت نہیں ہوگا جس کے اسباب کو سمجھنا کوئی مشکل بات بھی نہیں۔ متعدد عوامل ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں اور افغان امن عمل کو مشکل سے مشکل تر بناتے ہیں۔ افغان قوم نے بد ترین جبر و تشدد کا سامنا کیا ہے اور پاکستان شروع ہی سے افغان مسئلے کے فوجی حل کا سخت مخالف رہا ہے۔

اس کے باوجود بھاری مالی و جانی نقصان اٹھانے کے بعد امریکا کی زیرِ قیادت اتحاد تنازعات کے پر امن حل کا قائل ہوگیا ہے۔ یہ کاوشیں منظرِ عام پر آچکی ہیں اور افغان قوم نقصان پہنچانے والوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے باوجود امن کے حصول کے قریب ہے۔

ساری دُنیا، بالخصوص افغان قوم نے دوحہ امن عمل کے کامیاب آغاز کے بعد سکھ کا سانس لیا جو پر خلوص پاکستانی کاوشوں کے ذریعے ممکن ہوسکا لیکن افغان امن عمل کے مخالفین مذاکرات کے دوسرے مرحلے کو پٹڑی سے اتارنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی طرف سے ثابت قدمی اور صبر و تحمل نے مخالفین کے منصوبوں کو اب تک مسلسل شکست دی ہے۔ طالبان نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے کردار کے ساتھ ایک نئی عبوری اسلامی حکومت کے قیام کی طرف اشارہ کیا ہے۔

صدر جو بائیڈن کے زیرِ انتظام نئی امریکی حکومت زلمے خلیل زاد کے ہمراہ افغان امن عمل پر کام جاری رکھنے کیلئے رضا مند ہے جس کے تحت امن کاوشوں کی نگرانی کا ڈیزائن تیار کر لیا گیا ہے۔ سی پیک سے متعلق نئی پیشرفت، افغانستان کو تجارت اور پاک چین راہداری (سی پیک) کے منفرد مواقع فراہم کرنا ہے۔

بدقسمتی سے امر اللہ صالح جیسے مخالفین نے آئی ایس کے پی جیسے عوام کے قاتل گروہوں کی حمایت کے ذریعے ہم وطنوں کی تباہی و بربادی پر کام شروع کر رکھا ہے۔ انتظامیہ کی زیرِ قیادت اسپیشل فورسز صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ، طالبان قیدیوں اور مدرسے کے بے گناہ طلباء کی رہائی میں ملوث پائی گئی ہیں۔

دوسری جانب افغانستان افغان قوم کے ساتھ دوستی کا دعویٰ کرتا آیا ہے، اسی دوران بھارتی حکومت تشدد کی حوصلہ افزائی اور امن کاوشوں کی حوصلہ شکنی کے ذریعے افغان قوم کی تقسیم در تقسیم میں بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ بھارتی اثر رسوخ نے امر اللہ صالح جیسے آلۂ کاروں کے ذریعے تشدد میں اضافہ کیا ہے۔

بھارت کے کھوکھلے دعووں ننے ماضی میں کم قیمت والی بھارتی برآمد شدہ گندم کے ذریعے افغانستان کو بیماریوں کا شکار کیا۔ حال ہی میں بھارت نے باضابطہ کلینیکل ٹرائلز کیے بغیر افغان قوم کو ویکسین فراہم کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ شائننگ انڈیا کے نعرے سے متاثر ہونے والوں کیلئے کورونا ویکسین میں بد انتظامی چشم کشا ثابت ہوسکتی ہے۔

گزشتہ برس 2 دسمبر کے روز افغان حکومت اور طالبان نے انٹرا افغان ڈائیلاگ میں پیش رفت کا اعلان کیا۔ فریقین نے ایک تحریری معاہدہ کیا جس کے مطابق جنگ بندی جیسے اہم امور پر امن عمل میں مستقبل میں ہونے والے مباحثے میں پیشرفت کیلئے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

افغان امن عمل اختتام کے قریب آنے کے بعد اس عمل میں سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے پاکستانی قوم کے ذہن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایک مستحکم افغانستان سے پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟

واضح طور پر پاکستان کے بارے میں عالمی برادری کے اس تصور کو ختم کرنا مقصود ہے کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے یا پھر پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو دہشت گر گروہوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ، انٹیلی جنس اور فوجی امداد مہیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان افغانستان، امریکا، روس اور یورپی یونین سمیت بڑی علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کا بھی خواہش مند ہے۔

پہلی بار جنوبی ایشیاء میں امن و سلامتی کے حصول میں پاکستان کی توقعات اور کردار عالمی برادری کے مفادات سے ہم آہنگ ہوا ہے۔ افغانستان میں دیرینہ خونی مسلح تصادم کے خاتمے اور خطے میں استحکام لانے کی گزشتہ تمام کوششیں ناکام رہیں۔

ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ پاکستان میں افغان طالبان کی زیرِ قیادت حکومت کی حمایت ہو، تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان امن عمل میں اپنا پسندیدہ کھیل کھیل رہا ہے۔ پاکتان کی جانب سے فوجی اقدامات سے مذاکرات اور سمجھوتے کی طرف ردوبدل دیکھا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی طویل مدتی پالیسیوں میں بھی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔

مؤثر افغان امن کیلئے سہولت کار کے طور پر پاکستان کا کردار ریاست کیلئے کافی سود مند ہے۔ بڑی علاقائی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس آنے سے پاکستان کو دوسری ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اس سے پاکستان کو موقع ملے گا کہ وہ اپنی بنیادی خارجہ پالیسی میں افغانستان کے حوالے سے علاقائی اتحادیوں کا نیٹ ورک قائم کرے۔

علاوہ ازیں پاکستان دہشت گرد گروہوں پر دباؤ ڈالنے اور عالمی برادری کی جانب سے پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے دعووں کے خاتمے کیلئے افغان قوم کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔اس سے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے، تجارت میں اضافے اور معاشی امداد کی بحالی کا بھی موقع ملے گا۔

کابل میں پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے ایک دوست حکومت کی  امید کرنی چاہئے۔ پاکستان نے کسی ایک فریق کی حمایت کرنے کی بجائے افغان امن عمل میں غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کیلئے بھرپور کوشش کی ہے۔ دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین لڑائی کے دوران پاکستان نے مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

طالبان اور افغان حکومت کی لڑائی میں کودنے کی بجائے پاکستان نے باضابطہ طور پر اشرف غنی کو افغانستان کا نیا صدر تسلیم کر لیا اور مستقبل میں افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ اس سے عالمی برادری کے سامنے بین الافغان مذاکرات کے فیصلہ کن نتائج یقینی بنانے کے حوالے سے پاکستان کی ساکھ میں بھی بہتری آئی ہے۔

Related Posts