خواتین پولیس پر کیا بیتتی ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کا شمار اب بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت کی شرح فی الوقت بڑھ رہی ہے، جون 2021 میں ورلڈ بینک کے جاری تخمینے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 4اعشاریہ4 سے بڑھ کر 5اعشاریہ4 فیصد ہوئی ہے ۔

اس سلسلے میں دو ڈالرز یومیہ سے کم قوت خرید ( پاور پرچیز پیرٹی ) کو پیمانہ بنایا گیا ہے ۔پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔پاکستان میں غربت کا تناسب 39اعشاریہ3 فیصد جبکہ نچلے متوسط طبقے کی یومیہ آمدنی 3اعشاریہ2 ڈالرز یومیہ اور متوسط طبقے کی آمدی 5اعشاریہ5 ڈالرز یومیہ ہے ۔ یہ تناسب 78اعشاریہ4 فیصد یومیہ بنتا ہے ۔

نیشنل پولیس بیورو کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق پولیس میں خواتین کا تناسب دو فیصد سے کم تھا جبکہ ملک بھر میں کل 391364 پولیس اہلکاروں میں صرف 5731 خواتین تھیں تاہم ان تین برسوں میں بین الاقوامی فنڈنگ کے بعد خواتین کی نمائندگی پولیس کے شعبہ میں بھی کی گئی ہے اوراب خواتین کی ایک بڑی تعداد اسپیشل سیکورٹی یونٹ(ایس ایس یو) میں بھرتی ہو کر خدمات انجام دے رہی ہے۔

پاکستان میں خواتین کی مختلف شعبوں میں نمائندگی سے زیادہ ضروری پروفیشنل خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کے اقدامات ہیں ۔ اب تک وفاقی محتسب ہراسانی سمیت خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی ان مسائل کا ادراک نہیں کر سکی ہیں، کسی نہ کسی طور سامنے آنے والے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کی کارکردگی صفر ہے کیونکہ انہیں ادراک ہی نہیں کام کیسے کرنا ہے اور پروفیشنل خواتین کو کس طرح کے سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔

“انصاف برائے حوا کی بیٹی” کے عنوان سے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ کو موصول ہونے والی درخواست یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ سندھ پولیس میں بھرتی ہونے والی خواتین کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

اس درخواست میں کچھ خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا معمولی سا ذکر کیا ہے ، اس درخواست کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کو مختلف جگہوں پر اپنی رضا کار خواتین پلانٹ کرنا ہونگی جس کے بعد وہ صحیح معنوں میں خواتین کے حقوق کا ادراک کر کے تدارک کر سکیں گی۔

پولیس آفیسرز کے نام اس درخواست میں لکھا ہے کہ ہم لڑکیاں پولیس ہیڈ کوارٹر میں ڈیوٹی دے رہی ہیں ، مجبوریوں اور حالات سے تنگ آ کر ہم نے اپنے لیئے پولیس کا محکمہ چُنا تھا جس کے لئے گھر ، والدین اور بہن بھائی چھوڑے ہیں۔

بھرتی ہونے کے بعد والدین اور ہماری عزت کا خیال رکھنا پولیس افسران کا کام ہے ، ہمیں روزانہ اس محکمہ میں ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہوس کے مارے ہیں ، پولیس لائن کا نظام یہ ہے کہ یہاں ڈی ایس پی سے لیکر ایس ایس پی تک جب بھی کوئی پیشی ہو تو ریڈر اور آپریٹر ہمیں ایک مخصوص جگہ بتاتے ہیں کہ یہاں آ جائو ہم آپ کا کام بغیر پیشی کے کرا دیں گے جس کی وجہ سے ہمیں مجبوراً وہ سب کرنا پڑتا ہے۔

درخواست میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سندھ پولیس کے ہیڈ کوارٹر میں ڈی ایس پی اور اس کے ریڈر اور آپریٹروں نے الگ الگ کمرے تیار کر رکھے ہیں ، جہاں پر ہمارے اعمال ناموں کی سماعت اپنی عزت دے کر ہوتی ہے ، یہی حال اوپر تمام ریڈروں اور آپریٹروں کا بھی ہے، ہماری کچھ لڑکیاں جن کی عزت سے ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر اور کچھ ریڈرز و آپریٹرز کھیلتے ہیں ، ان کی تصاویر اور ویڈیوز ہمارے پاس محفوظ ہیں جو اس صورت میں دی جائیں گی جہاں ہمیں انصاف کی امید ہو گی ، اگر ہمیں آئی جی ، ڈی آئی جی وغیرہ بھی انصاف نہیں دیتے تو مجبوراً ہمیں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے رجوع کرنا پڑے گا ۔

اس درخواست میں لیڈی پولیس اہلکار نے ایک تجویز بھی دی تھی کہ لیڈیز پولیس کے لئے ایک اسپیشل خاتون پولیس افسر تعینات کی جائے جس کی ریڈر بھی خاتون افسر ہو تاکہ لیڈیز پولیس ان سے اپنے مسائل ڈسکس کر سکے۔

اس درخواست کے بعد کیا ہوا کوئی خبر نہیں ہے ، کیوں کہ انکوائری کرنے والے افسر نے اپنے پیٹی بند کو بچانا ہوتا ہے اور قصور وار خواتین کو ہی ٹھہرایا گیا ہو گا یا زیادہ سے زیادہ یعنی نفسیاتی ہونے کا الزام لگا دیا گیا ہو گا ۔

کس کو یاد نہیں کہ کراچی پولیس کا معروف نام و پہلی خاتون ایس ایچ او سیدہ غزالہ نے بھی پولیس افسران پر اسی نوعیت کا ایک الزام عائد کیا تھا جس پر بعد میں مکمل خاموشی اختیار کر لی گئی تھی ، اسی طرح شاہراہ فیصل تھانے میں تعینات بعض خواتین اہلکاروں نے بھی اعلیٰ افسران کو خط لکھ کر افسران کی ہراسگی کے بارے میں شکایت کی ہے، رپورٹنگ کے تجربات کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ادارہ یا فرد اگر ان خواتین کو احساس تحفظ دلائے تو وہ ضرور شکایت کرتی ہیں اوراس شکایت پر قائم رہتی ہیں ۔

ہمارے اداروں کا ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ یہاں خواتین جذبات میں آ کر شکایت تو کر دیتی ہیں مگر بعد میں والدین اور دیگر اعزا کی مداخلت پر شکایت کو غلط فہمی کہہ کر شکایت واپس بھی لے لیتی ہیں جس سے نا صرف معاشرے میں پھیلی غلطی مزید پنپتی ہے بلکہ اسی نوعیت کے دیگر مجرم بھی اپنے کیئے پر نادم ہونے کے بجائے مزید اس قسم کے کام جاری رکھتے اور اپنی سوسائٹی کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں ۔

اس کی تازہ ترین مثال ہری پور یونیورسٹی کے اندر ہونے والا ہراسمنٹ کا کیس ہے جس کی شکایت پر یونیورسٹی انتظامیہ نے خاموشی اختیار کی اور بعد ازاں ہمارے رپورٹ کرنے پر ہلچل شروع ہوئی ، سماجی تنظیمیں حرکت میں آئیں اور دیگر لڑکیوں کو بھی ہمت ہوئی یوں ایک دو ہفتوں کے اندر دونوں اساتذہ کے خلاف کارروائی ہوگئی۔

یاد پڑتا ہے کہ ایس ایس یو کے ایک دیرینہ اعلیٰ افسر ہیں ان کا بھانجھا ادارے کی خواتین کے ساتھ ایسا ہی ملتا جلتا تھا جیسے وہ انہی کے کلب کا ممبر ہو ، کئی ایک خواتین نے ایک جیسی شکایات بھی کیں مگر جب کہیں انصاف کی امید نہ رہے تو بسا اوقات مجبوری انسان کو بھٹکا ہی دیتی ہے ۔

حال ہی میں ایک نچلے اسکیل کے پولیس اہلکار کو تھانے سے ہٹوایا گیاہے جس کے بارے میں اسی نوعیت کی شکایات تھیں ، وہاں بھی خواتین سامنے آنے کو تیار نہ تھیں جس کی وجہ سے اہلکار کا وہاں سے تبادلہ کرانا ہی عافیت سمجھا گیا تاہم یہ ایسا ہی ہے کہ کنویں سے پانی کے ڈھول تو نکال لیئے جائیں مگر نجاست وہیں موجود رہے ،کاز تب موثر ہوتے ہیں جب معاملہ بیماری کو ختم کرنے کے بجائے بیمار پر منتج ہو۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین پولیس اہلکار اپنے حقوق کیلئے ایسوسی ایشن بنائیں ‛ کسی ایسے واقعہ کو رپورٹ کریں تاکہ ان کی پولیس میں بڑھتی ہوئی تعداد ہراسمنٹ سے محفوظ رہے ۔

Related Posts