ایشیا کپ، کیا پاکستان اور بھارت کے مابین تیسرا کرکٹ میچ بھی ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایشیا کپ کے شیڈول کا اعلان ہوا تو کرکٹ شائقین تین تین انڈیا پاکستان میچز کے امکان پر پرجوش ہو گئے تھے لیکن کیا تیسرا میچ ممکن ہو پائے گا- افغانستان کی ٹیم جو اس وقت بہترین فارم میں عمدہ کرکٹ کھیل رہی ہے، کہیں کوئی بڑا اپ سیٹ تو نہیں کر دے گی؟

کیا پانچ بار کی ایشیا کپ چیمپین سری لنکا اس پاک بھارت فائنل کے راستے میں رکاوٹ بن پائے گی؟ کون سی دو ٹیمیں فائنل میں پہنچیں گی اور کون چمپئن بنے گا، ان تمام سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔

قومی ٹیم کی کارکردگی

پاکستانی ٹیم بھارت کے خلاف پہلے میچ میں ایک اچھے مقابلے کے بعد شکست کا شکار ہوئی تو دوسرے میں ہانگ کانگ کو بآسانی شکست دے دی۔ دونوں میچز کے نتائج میں خاصا فرق تھا لیکن دونوں میچز میں پہلے دس اوورز میں پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ اپروچ ایک جیسی نظر آئی۔ ٹی ٹونٹی کے مار دھاڑ والے دور میں بھی پاکستانی ٹیم پہلے دس اوورز میں وکٹیں بچاتی نظر آتی ہے تاکہ آخری دس اوورز میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔

یہ اپروچ کبھی تو بہت اچھے نتائج لاتی ہے اور آخری دس اوورز میں پاکستانی ٹیم سو سے بھی زیادہ رنز بنا لیتی ہے لیکن کبھی پے در پے وکٹیں گرنے اور کسی بھی کھلاڑی کی زوردار ہٹنگ میں ناکامی پاکستانی ٹیم کو ایک درمیانے سے سکور تک ہی محدود کر دیتی ہے۔

حکمتِ عملی کا فقدان

پہلے دس اوورز میں وکٹیں بچانے اور بعد میں تیز کھیلنے کی اپروچ میں کچھ خاص مسئلہ تو نہیں لیکن وکٹیں بچاتے ہوئے کبھی کبھار رنز کی رفتار بہت سست ہو جاتی ہے۔ کبھی بابر اور کبھی رضوان ٹی ٹونٹی میچ میں سو سے بھی کم سٹرائیک ریٹ سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ دونوں ورلڈ کلاس بیٹسمین ہیں اور مشکل سے مشکل پچز اور بہترین باؤلنگ یونٹ کے خلاف بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور کر سکتے ہیں۔ ایسے میں اس طرح کی سست اپروچ کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

وکٹیں بچانے کے لئے پہلے دس اوور میں مار دھاڑ نہیں بھی کرنی تو پاور پلے میں مسلسل گیندیں ضائع کرنے سے بچا تو جا سکتا ہے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان پاکستان کی جانب سے ٹی ٹونٹی کرکٹ میں سکور کا زیادہ تر حصہ خود ہی بنا ڈالتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے اوورز کا زیادہ حصہ بھی خود ہی استعمال کر لیتے ہیں۔

مڈل آرڈر بیٹرز کو نہ تسلسل سے بیٹنگ کا موقع ملتا ہے اور نہ ہی کھیلنے کے لئے اوورز کی مناسب مقدار- اگر اس اپروچ سے پاکستانی ٹیم 180+ سکور تک پہنچ جائے تو سب عمدہ ہو جاتا ہے لیکن جب ایسا نہیں ہو پاتا تو باؤلرز کے لئے شدید مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔

باؤلرز کے مسائل
پاکستانی باؤلنگ کی اگر بات کی جائے تو دونوں میچز میں باؤلرز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نسیم شاہ نے شاہین شاہ آفریدی کی کمی محسوس نہ ہونے دی تو دھانی نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ شاداب کی باؤلنگ میں مسلسل بہتری آ رہی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ محمد نواز بھی ٹیم کی کامیابیوں میں اپنا کردار ادا کرنے کو پوری طرح سے تیار ہیں۔

بھارت کے خلاف ایک چھوٹے ہدف کے تعاقب میں پاکستانی باؤلرز نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن گرمی کے باعث ہونے والے فٹنس مسائل اور ہاردک پانڈیا نے فتح پاکستان سے چھین لی۔ پاکستانی باؤلنگ کی خاص بات 20 اوورز میں بھی مخالف ٹیم کو تسلسل سے آل آؤٹ کرنا ہے اور یہی پاکستان کے لیے کامیابی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

بھارت کی اپروچ 
انڈین ٹیم پہلے راؤنڈ کے دونوں میچز جیت گئی لیکن انڈیا کی بیٹنگ بھی پہلے دس اوورز میں کافی حد تک پاکستانی اپروچ سے ملتی جلتی رہی۔ پہلے میچ میں پاکستان کے خلاف کمتر ہدف انڈیا کے لئے کافی مشکل بن گیا تھا لیکن پاکستانی بیٹرز کی فٹنس اور پانڈیا جدیجہ پارٹنرشپ نے میچ بچا لیا۔ 

ہانگ کانگ کی باؤلنگ کے خلاف بھی انڈیا کا آغاز سست تھا لیکن پھر سوریا کمار یادوو کی لاجواب ہٹنگ نے بھارت کے اسکور کو ہانگ کانگ کی پہنچ سے باہر کر دیا۔ مشکل میچز میں پہلے کھیلتے ہوئے بھارت کو اپنی بیٹنگ اپروچ میں بہتری کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب جدیجہ انجری کے باعث ٹورنامنٹ سے باہر ہو چکے ہیں۔

ورات کوہلی کی فارم میں واپسی بھارت کے لیے نہ صرف باقی ایشیا کپ میچز بلکہ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے لئے بھی بہت خوش آئند بات ہے۔ کوہلی جیسا بیٹسمین اتنے اہم ٹورنامنٹ میں نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ 

جسپریت بمرا کی غیر موجودگی کے باوجود بھارتی باؤلرز نے اب تک شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا ہے۔ خاص طور پر پاکستانی بیٹرز کے خلاف باؤنسرز کا استعمال موثر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ٹیم کے لیے کافی حیران کن بھی رہا اور تمام اہم بیٹرز اس شاٹ پچ باؤلنگ کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔

ہماری مخالف ٹیم بھارت کے لیے اگلے میچز میں سب سے اہم جدیجہ کی غیر موجودگی ہو سکتی ہے جو باؤلنگ کے ساتھ ساتھ کسی بھی نمبر پر بیٹنگ بھی کر سکتے ہیں۔ انڈیا کی باؤلنگ ابھی تک عمدہ کارکردگی دکھا رہی ہے لیکن دیکھنا ہو گا کہ مشکل حالات میں نوجوان باؤلرز کیسی کارکردگی دکھا پاتے ہیں۔

افغانستان کی ٹیم
افغانستان کے پاس راشد خان، مجیب اور محمد نبی کی صورت میں بہترین اسپن باؤلرز تو پہلے سے ہی موجود تھے لیکن اب لگتا ہے کہ افغانستان کے فاسٹ باؤلرز بھی ٹیم کو میچ جتوا سکتے ہیں۔

سری لنکا کے خلاف فضل حق فاروقی کا شاندار پہلا اوور پاکستانی شائقین کو شاہین آفریدی کی یاد تازہ کروا گیا۔ اس اوور میں گرنے والی دو وکٹوں نے سری لنکا کو اتنا پیچھے کر دیا کہ میچ میں واپسی کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہی۔ اگر 106 کے ہدف کے باوجود سری لنکا کا میچ میں کوئی امکان باقی تھا تو رحمان اللہ گرباز کی بہترین ہٹنگ نے ایسا کوئی امکان بالکل ہی ختم کر دیا۔

پہلے میچ میں گرباز کی ہٹنگ بے مثال رہی تو دوسرے میں نجیب اللہ زدران کی ہٹنگ لاجواب تھی۔ جب نجیب کریز پر آئے تو مطلوبہ رن ریٹ تھوڑا پریشان کن ہو چلا تھا لیکن نجیب نے چند گیندوں میں ہی میچ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔

افغانستان نے ان دو میچز سے ایشیا کپ کے باقی میچز کے لیے ہی نہیں ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں باقی ٹیموں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان کی ٹیم ایسی کارکردگی بڑی ٹیموں کے خلاف تسلسل سے دکھا پائے گی؟

اس ٹورنامنٹ میں سری لنکا کا آغاز بھلا دینے والا تھا۔ افغانستان کے خلاف پہلے ہی اوور میں دو وکٹیں کھو دینے کے بعد ایک معمولی ہدف افغانستان کے سامنے رکھا جا سکا جسے انہوں نے 10 اوورز میں ہی پورا کر دیا۔ بنگلہ دیش کے خلاف سری لنکن ٹیم شکست کے دھانے پر تھی لیکن اس میچ میں ایسا لگا کہ دونوں ٹیمیں جیت کے لیے نہیں شکست کے لیے لڑ رہی ہیں۔

انیسویں اوور میں چمیکا کرونارتنے ایک خود کش رن لیتے ہوئے آؤٹ ہوئے تو لگا کہ پانچ بار کی ایشین چیمپئن سری لنکا ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی لیکن شاید بنگلہ دیشی ٹیم بھی جیتنا نہیں چاہتی تھی اور یوں سری لنکن ٹیم آخر جیت ہی گئی۔

سری لنکن ٹیم دوسرے راؤنڈ میں تو پہنچ گئی لیکن جیسا وہ کھیل رہے ہیں، اس سے لگتا نہیں کہ وہ پاکستان، بھارت یا افغانستان کے لیے کسی بھی قسم کی مشکلات کھڑی کر پائیں گے۔ سری لنکا میں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز جیتنے والی ٹیم سے کہیں بہتر کارکردگی کی توقع تھی لیکن لگتا یہی ہے کہ سری لنکا کے فائنل کھیلنے کے امکانات چار ٹیموں میں سب سے کم ہیں۔
افغانستان کی ٹیم پاکستان بھارت فائنل کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ پہلے راؤنڈ کے دو میچز میں جیسا کھیل افغانستان نے پیش کیا، اس سے لگتا یہی ہے کہ وہ سری لنکا کو تو شکست دے ہی ڈالے گی، ساتھ ہی اچھے دن پر پاکستان اور بھارتی ٹیم کو بھی ڈھیر کر سکتی ہے۔

افغانستان کے اسپنرز نے ون ڈے ورلڈکپ 2019 میں بھی سب سے بہترین کارکردگی پاکستان اور بھارت کے خلاف ہی دکھائی تھی۔ اگر وہ ایسی ہی کارکردگی اب دکھا پاتے ہیں اور فاسٹ باؤلرز ان کا ساتھ دیتے ہیں تو اپ سیٹ کے امکانات کافی روشن ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کا افغانستان سے میچ

اگر کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آتی تو پاکستان سری لنکا کو تو آسانی سے شکست دے سکتا ہے۔ افغانستان کی ٹیم بہت اچھا کھیل رہی ہے لیکن پاکستانی ٹیم کو اسے شکست دینی چاہیے۔ افغانستان کے خلاف یہ میچ پاکستان کے لیے کافی مشکل ہو سکتا ہے لیکن اگر پاکستانی باؤلرز موجودہ فارم برقرار رکھتے ہیں دو جیت کا امکان کافی زیادہ ہے۔ پاکستان انڈیا کا میچ کے بارے میں کسی بھی قسم کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ بیٹنگ میں انڈیا کو اور باؤلنگ میں پاکستان کو واضح برتری حاصل ہے لیکن ان دونوں ٹیموں کے میچز کے دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اس وقت اگر کسی ٹیم کا فائنل کھیلنا تقریباً یقینی لگتا ہے تو وہ بھارت کی ٹیم ہے۔ انڈیا نے دونوں میچز میں اچھا کھیل پیش کیا اگرچہ ناتجربہ کار فاسٹ باؤلرز ارشدیپ سنگھ اور اویش خان رنز کی رفتار کو روکنے میں ناکام نظر آئے، ساتھ ہی جدیجہ کی غیر موجودگی بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

ٹیموں کی کارکردگی، پچز اور حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور انڈیا کا فائنل بہت زیادہ ممکن نظر آتا ہے اور فائنل میں فتح اسی ٹیم کو ملے گی جو میچ میں حواس پر قابو رکھ سکے۔

ٹاس کی اہمیت

یہ سب باتیں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ساتھ ہی ٹاس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فائنل سمیت 5  میچز دبئی میں ہونا ہیں جہاں پہلے کھیل کر جیتنا ناممکنات میں سے لگ رہا ہے۔

پچھلے سال ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں بھی زیادہ تر میچز میں پہلے باؤلنگ کرنے والی ٹیمیں فاتح رہیں اور اس بار ایشیا کپ میں بھی ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس سب کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کارکردگی اہم ہے پر شاید ٹاس اس سے کہیں اہم ہو چکا ہے۔ ٹورنامنٹ میں فتح کے لیے اچھی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اچھی قسمت بھی لازمی ہو چکی ہے۔