نئے بجٹ 2021ء سے آپ کون کون سی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Mini budget preparations: Will new taxes become a burden on people?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج کل تمام تر نظریں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پر ہیں کیونکہ کل جمعے کے روز  سالانہ بجٹ 22-2021ء پیش کیا جائے گا جسے معاشی سرگرمیوں میں قابل ذکر غوروخوض کے بعد عوام اور کاروبار پر کورونا کے اثرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔

ہر سال سرکاری ملازمین بھی بجٹ کا انتظار کرتے ہیں کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انہیں امید ہوتی ہے کہ حکومت ملازمین کیلئے کچھ اقدامات اٹھائے گی۔ دکاندار اور تاجر وغیرہ بھی بجٹ دیکھ کر اپنے آپ کو کسی بھی وقت مارکیٹ کی قیمتوں اور دیگر حقائق پر اپ ڈیٹ کرسکتے ہیں۔

سرکاری ملازمین بجٹ میں دی گئی تجاویز اور سرکاری احکامات کے تحت مہنگائی میں اضافے کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ وہ کاروباری افراد اور تاجر برادری کی طرح ازخود اقدامات اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان کی ساری توقعات بجٹ سے وابستہ ہوتی ہیں۔ اور نئے مالی بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے سے متعلق مختلف خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ہر سال ایسی ہی خبریں سامنے آتی ہیں تاہم نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات یعنی صفر برآمد ہوتا ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق حکومت وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 15 سے 20 فیصد تک اضافے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ملک بھر میں بیوروکریسی کیلئے تو ضرور مراعات ہیں، مثال کے طور پر وزیرِ اعظم ہاؤس، ایوانِ صدر اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ، اسی طرح ایف بی آر، نیب، ایف آئی اے اور عدلیہ کو بھی دگنی تنخواہیں ملتی ہیں تاہم دیگر ملازمین مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں۔

کچھ رپورٹس یہ بھی کہتی ہیں کہ حکومت پنشن کا حجم کم سے کم رکھنے کیلئے کونٹریبیوٹری پنشن سسٹم متعارف کرنے پر غور کر رہی ہے۔ تجویز کے تحت ایک الگ فنڈ تشکیل دیا جاسکتا ہے جس کیلئے عالمی بینک سے رقم مہیا کرنے کی توقع کی جارہی ہے۔

سبسڈی کیلئے بجٹ میں 400 ارب روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے۔ دفاعی بجٹ کا تخمینہ آئندہ مالی سال کیلئے 1 ہزار 300 ارب روپے سے زیادہ رکھا گیا ہے۔ وزیرِ خزانہ نے اسکیم کے تحت نوجوانوں کو قرضوں کی فراہمی کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حکومت نوجوان نسل کیلئے قرضوں کی حد میں اضافہ بھی کرسکتی ہے۔

حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے 94 فیصد لوگ معاشی اشاریوں کی حقیقت سے ناواقف ہیں، مثال کے طور پر جی ڈی پی، شرحِ نمو، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اورزرِ مبادلہ کے ذخائر کیا ہوتے ہیں؟ انہیں کچھ پتہ نہیں۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسز کے بوجھ تلے دبے ہوئے اور بے حد پریشان ہیں۔ بجٹ سے عوام نے نئی امیدیں وابستہ کر لی ہیں کہ شاید بد ترین مہنگائی سے کچھ چھٹکارہ مل سکے۔

حکومت کو غریب اور نچلے متوسط طبقات کیلئے سبسڈی کا اعلان کرکے انہیں مہنگائی سے نجات دلانی چاہئے تاکہ لوگ مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی جیسے عفریت کا مقابلہ کرسکیں۔ 

یہ بھی پڑھیں: قادر مندوخیل سے جھگڑا، فردوس عاشق اعوان سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئیں

Related Posts