ترکی کاشام میں کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ترکی نے شمالی شام میں جاری آپریشن جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، ترکی کے صدر کے ترجمان نے شامی فوج اور کرد ملیشیا کے درمیان ہونے والے معاہدے کو مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ترکی کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ان کہنا ہے کہ دنیا چاہے ہماری کوششوں کو نظرانداز کرے اور ہمارا ساتھ نہ دے لیکن ہم پی کے کے(ترکی میں سرگرم کرد گروپ) اور داعش سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے میں فوجی آپریشن کیا جارہا ہے جس کا مقصد وہاں سے شامی کرد ملیشیا کو پیچھے دھکیل کر اپنی سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔ترکی اپنی سرحد سے متصل شامی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ شامی مہاجرین کو بھی وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے۔اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی) ’جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔
شمال مشرقی شام پر ترکی کے حملے نے بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں،امریکا نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں جو کچھ بھی کیا وہ وہ نہ صرف رائیگاں رہا بلکہ اس کے برعکس نتائج سامنے آئے۔یکم اکتوبر تک امریکی پالیسی یہ تھی کہ وہ شام سے اپنی فوج واپس نہیں بلائے گا۔ امریکا کا موقف تھا کہ جب تک ایران شام میں موجود اپنی ملیشیائوں کو بے دخل نہیں کرتا اس وقت تک امریکا شام میں موجود رہے گاضرورت پڑی تو جنیوا مذاکرات کے ٹریک پر چلتے ہوئے شام میں نئی حکومت کی تشکیل تک امریکا شام سے نہیں نکلے گا۔امریکیوں کا خیال تھا کہ مشرقی فرات کے علاقے کا حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اصل وزن ہوگا اور اس معاملے پر شامی رجیم سے بامقصد بات چیت کی جاسکے گی۔
تاہم ترک فوج کی شمال مشرقی شام کے سرحدی علاقے میں داخل ہونے سے امریکا کی اس اسکیم کو سخت دھچکا لگا۔ امریکا نے کردوں کو شامی حکومت اور روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ کردوں نے شام کے فوجی دستوں اور دیگر روسیوں کو بھی اپنے کچھ علاقوں میں جانے کی اجازت دی۔ روس فضائیہ سرکاری فوجی اڈوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی۔
اب امریکیوں کو ماسکو کے ساتھ فضائی حدود کے مسئلے سے نمٹنا ہے۔ کچھ عرصے تک مشرقی فرات کے علاقوں پر صرف امریکی فضائیہ کی اجارہ داری تھی مگراب امریکا کی مشرقی فرات پر اجارہ داری ختم ہوگئی ہے۔ اب اس علاقے میں روسی فضائیہ اور شامی رجیم کے طیارے بھی پروازیں کرتے ہیں۔
امریکا نے شام اور ترکی کی سرحد پر 32 کلو میٹر کے علاقے کو خالی کرنے کے انقرہ کے مطالبے سے اتفاق کیا ہے۔ مگر انقرہ کی پالیسی یہ ہےکہ وہ شام میں کردوں کو شام میں کہیں بھی منظم ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو پہلے پیش قدمی پر اکسایا اور اس کے بعد مکاری سے شام کے شمال مشرقی علاقوں سے امریکی افواج کو باہر نکالنے کا فیصلہ کیااورترکی نے مگر جب پیش قدمی شروع کردی تو اسے اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بناتے ہوئے معاشی اعتبار سے مفلوج کرنے کی تیاری شروع کردی،شام پر کئی برسوں سے مسلط خانہ جنگی کو مزید خوفناک بنانے کا اہتمام بھی کردیا۔
اب امریکی صدر ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ غیر مستحکم علاقے میں امن کویقینی بنانا اب امریکی کی ذمہ داری نہیں ہے جبکہ ترکی کا موقف ہے کہ آپریشن مختصر ہوگا اور ان کا رکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہےتاہم شام کے صدر بشارالاسد نے کرد افواج کی مدد کیلئے فوج بھیج دی ہے جس سے نیا تنازعہ جنم لینے کا خدشہ ہے اور خطے میں ایک ایساماحول پیدا کیا جارہاہے جس سے تباہی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔

Related Posts