قوم عالمی سطح پر اپنے کردار سے بعد میں پہچانی جاتی ہے، اگر کسی قوم کی حقیقی پہچان مقصود ہو تو دیکھنا یہ چاہئے کہ اس میں عدل و انصاف کیلئے تڑپ اور ظلم کے خلاف نفرت کتنی ہے۔
اگر کسی قوم کی حقیقی طاقت پہچاننی ہو تو ان کے طاقتوروں کے کمزوروں کے ساتھ سلوک کو دیکھنا چاہئے کیونکہ جس قدر انسان ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کے اصول پر حکومت کرتا ہے، اسی قدر اس کا کردار انسانیت سے دور اور حیوانیت سے قریب ہوجاتا ہے۔
بات سمجھ میں نہ آئی ہو تو یہ سادہ سا اصول ذہن نشین کرلیجئے کہ جنگل کا بادشاہ شیر اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ اگر یہ طاقت کسی گیدڑ کے پاس چلی جائے تو اقتدار اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی داستان پاکستان کی ہے۔
یہاں اقتدار طاقتوروں کو ملا اور جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے اپنے بیٹے بیٹیوں کو وہی اقتدار وراثت کی صورت میں سونپ کر اس تصور کی جِلا دی کہ ہم سلطان ابنِ سلطان ابنِ سلطان جبکہ تم عوام غلام ابنِ غلام ابنِ غلام ہو۔
بدھ 9اگست کے روز سویڈن کی یونیورسٹی میں امن و جنگ کے موضوع پر تعلیم دینے والے بھارتی پروفیسر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو 5سال کیلئے الیکشن لڑنے سے روک دیا۔ مالدیپ کے بعد وہی حکمتِ عملی پاکستان پر آزمائی جارہی ہے۔
بھارتی پروفیسر اشوک سوائن نے کہا کہ ”یہی حکمتِ عملی بھارت میں بھی اپنانے کی کوشش تو کی گئی، لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے کچھ وقت کیلئے کامیاب نہیں ہونے دی۔“ یعنی اگر پاکستانی سپریم کورٹ کو بھی اتنی ہی طاقت حاصل ہوتی جتنی بھارتی سپریم کورٹ کو ہے، تو شاید ایسا نہ ہوتا۔
اس کا دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ اگر ”کچھ وقت کیلئے“ کی شرط ہم کچھ وقت کیلئے ہٹا دیں تو بھارتی سپریم کورٹ بھی اس حکمتِ عملی کو نافذ ہونے سے روکنے میں کسی نہ کسی حد تک ناکام ضرور ہوئی ہے کیونکہ بھارت میں جمہوریت تو ضرور مضبوط ہوسکتی ہے، عدل و انصاف نہیں۔
عدل و انصاف کو پاکستان کی طرح بھارت میں بھی پنپنے نہیں دیا گیا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت بھارتی ریاست منی پور سمیت دیگر ریاستوں میں فسادات، مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں سے ناروا سلوک اور قتل و غارت ہے جس نے بھارت کے ایک عام شہری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔
یہاں اگر ہم اپنے موضوع یعنی ”ایک ٹویٹ 3 کہانیاں“ سے رجوع کریں تو پہلی کہانی عمران خان کی ہوئی جنہیں اٹک جیل میں قید کردیا گیا جس کا الزام بھارتی پروفیسر نے تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر عائد کیا ہے، ہم حکومت پر بھی عائد کرسکتے ہیں اور عدلیہ پر بھی، کیونکہ عمران خان کو 3 سال کی سزا ایک جج نے سنائی۔
دوسری کہانی بھارت کی ہے جہاں یہ حکمتِ عملی ناکام رہی کیونکہ مودی حکومت نے اپوزیشن کے متعدد رہنماؤں کو تو مختلف کیسز کے تحت قید بھگتنے پر مجبور کیا تاہم راہول گاندھی سمیت دیگر بڑے بڑے نام تاحال آزاد ہیں اور مودی حکومت کو کھل کر تنقید کا نشانہ بھی بناتے نظر آتے ہیں۔
تیسری کہانی مالدیپ کی ہے جہاں 6اگست کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق صدر عبداللہ یامین کو جیل کی سزا سنا کر ستمبر کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے محروم کردیا جبکہ مالدیپ کی ترقی پسند پارٹی (پی پی ایم) نے ان کو اپنا امیدوار قرار دیا تھا۔
دلچسپ طور پر مالدیپ کے سابق صدر پر بھی کچھ ایسے ہی الزامات ہیں جیسے کہ عمران خان پر عائد کیے گئے ہیں یعنی بدعنوانی، منی لانڈرنگ اور رشوت لینے جیسے الزامات اور جیسا کہ عمران خان پر یہ الزامات سن کر یہاں کے لوگ حیران ہوتے ہیں، مالدیپ کے شہری بھی حیران ہی ہیں کہ یہ کیا ہوگیا؟