اسٹیبلشمنٹ مقامی ہو خواہ عالمی لاڈلے ان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ ایک عرصے تک تو لاڈلے صرف عیاشی کرتے رہے۔ مگر اب یہ آقاؤں کے گلے پڑنے لگے ہیں۔ مقامی لاڈلوں کا گلے پڑنا تو آپ قریب سے دیکھ چکے۔ ہم بات کر رہے ہیں عالمی سطح پر پائے جانے والے لاڈلوں کی۔ وہ لاڈلے جن کے نخروں نے اپنے آقاؤں کو مشکل میں ڈالا تو آقاؤں کے اعصاب ایسے ٹوٹے کہ عالمی امن کے لئے ہی خطرہ بن گئے۔
ڈیڑھ دو ماہ قبل کی ہی تو بات ہے کہ غزہ میں منہ کی کھانے والا اسرائیل سر توڑ کوششیں کر رہا تھا کہ کسی طرح ایران سے جنگ چھڑ جائے۔ ایسی جنگ جس میں مرکزی کردار تو امریکا اور اس کے مغربی حواریوں کا ہو ، مگر فتح ملے تو اس کا تاج اسرائیل کے سر سجا دیا جائے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو عسکری امور کا شعور رکھنے والے دانشوروں نے ہی نہیں بلکہ خود عالمی آقاؤں نے بھی سمجھایا کہ یہ پنگا مہنگا پڑے گا۔ مگر لاڈلہ نہ مانا۔
اس کی ضد بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جو کئی عشروں سے ایک تاثر قائم تھا کہ اسرائیل محفوظ ترین ملک ہے، بکھر کر رہ گیا۔ ایران نے یکم اکتوبر 2024ء کو ثابت کردیا کہ آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلینگ اور ایرو سیریز نامی ڈھالیں صرف شو پیس ہیں۔مگر لاڈلے کو عقل نہ آئی۔ اس نے ضد پکڑ لی کہ مجھے بدلہ لینا ہے۔
اس نے بدلہ لینے کے لئے منصوبہ تشکیل دیا کہ اس کے درجنوں حربی طیارے تین مراحل میں ایران پر حملہ کریں گے۔ پہلے مرحلے میں ایران کے ریڈارز اور اینٹی ایئر ڈیفنس سسٹم کو تباہ کیا جائے گا۔ باقی دو مراحل میں اہم سٹریٹیجک اہداف کو گویا نیست و نابود کردیا جائے گا۔
مگر ہوا یہ کہ پہلے ہی مرحلے پر اس کے سٹیلتھ ایف 35 طیاروں کو ایران کے اَن نون ایئرڈیفنس سسٹم نے ٹریک کرکے لاک کردیا۔ طیارہ جب لاک ہوجائے تو اس کے بعد بس میزائل فائرہونے کا ہی مرحلہ ہوتا ہے۔ اور میزائل اب ایسے آگئے ہیں جن سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایئروار کالجز میں اب پائلٹوں کو سیدھا سیدھا یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اگر آپ لاک ہوگئے تو اس کا مطلب ہے آپ ہٹ ہوگئے۔
یہ بات اب حقیقت کے طور پر تسلیم ہوچکی کہ ایران پر حملے کے لئے آنے والے اسرائیلی طیاروں نے ایرانی سرحد سے 70 کلومیٹر کے فاصلے سے میزائل داغے اور بھاگ نکلے۔اس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ایرانی میزائل اسرائیل پہنچے تھے تو مقامی آبادی نے ہی لاتعداد ویڈیوز بنا کر میزائلوں کی اس برسات کے مناظر سوشل میڈیا پر پوری دنیا کو دکھا دیئے تھے لیکن جب ایران پر حملے کے لئے اسرائیلی طیارے آئے تو کوئی ایک طیارہ بھی کسی کو ایرانی فضائی حدود میں نظر نہ آیا۔
طیارہ کیا کوئی میزائل بھی کسی ہدف کی طرف لپکتا نظر نہ آیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی میزائل روسی جیمرز کا شکار بن گئے تھے۔ اس حملے میں کل ملا کر ایک عدد ایس 300 کی تباہی کا ہی ثبوت دستیاب ہوسکا تھا۔ کیا آپ نے نوٹ کیا ہے کہ اس شرمناک ناکامی کے بعد نیتن یاہو نے ایران سے پنگے بازیاں بند کردی ہیں ؟
ایران میں صرف لاڈلے کا ہی غرور خاک میں نہیں ملا تھا بلکہ یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ خود امریکہ کے لئے بھی ایران اب آسان ہدف نہیں رہا۔اگر آپ نے مشرق وسطی کے حوالے لکھے ہمارے گزشتہ کالم پڑھ رکھے ہیں تو یقینا یاد ہوگا کہ ہم نے اس بات پر بہت زور دیا تھا کہ روس ایران کے فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے سرگرم ہے اور ہم نے لکھا تھا کہ اگرچہ سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی جا رہی مگر اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ ایران کو ایس 400 فراہم کئے جاچکے ہیں۔
دو تین روز قبل پاسداران انقلاب کے کمانڈر نے بالآکر اس کی تصدیق بھی کردی۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ کا سب قابل فخر ایف 35 ہی ٹریک اینڈ لاک ہوگیا تو بچا کیا ؟
ایرانی دفاع میں روس کے اس کلیدی کردار کا ردعمل امریکہ سے اب آرہا ہے۔ تب امریکی انتخابات سر پر تھے، سو برداشت سے کام لینا ضروری تھا۔ مگر اب جب انتخابات کی دھول پوری طرح بیٹھ چکی تو امریکا کی جانب سے روس کو مزہ چکھانے کا نہایت خطرناک راستہ چن لیا گیا۔
بطاہر یہ کہا گیا کہ امریکہ کی طرف سے یوکرین کو روس کے خلاف اٹیکم میزائل کے حملے کی “اجازت” دیدی گئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ یوکرین یا کوئی بھی اور ملک یہ میزائل فائر کرسکے، یا اسے ان میزائلوں کی فائرنگ سکھائی جاسکے۔ کیونکہ ان میزائلوں میں ٹارگٹنگ ڈیٹا فیڈ کرنا اور انہیں سٹیلائٹس سے لنک کرکے فائر کرنا ایسا طریقہ کار ہے جس کے لئے امریکی سٹیلائٹس تک رسائی ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب یہ میزائل فائر ہوں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ فائر کرنے والے خود امریکی ہیں۔ سو جسے یوکرین کو دی گئی اجازت بتایا جا رہا تھا، وہ درحقیقت مریکہ کا ہی حملہ تھا۔ ظاہر ہے اس ردعمل تو آنا تھا۔
روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن کا ایک دلچسپ پیٹرن ہے۔ وہ یہ کہ کسی بھی بڑے اقدام سے قبل وہ دو سے تین روز یا ایک سے دو ہفتوں تک منظر عام سے غائب ہوجاتے ہیں۔ نہ وہ کسی تقریب میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی بیان جاری ہوتا ہے۔
چنانچہ ایسا جب بھی ہوتا ہے تو اس کا سیدھا سیدھا یہ مطلب ہوتا ہے کہ کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔جب روس پر اٹیکم میزائل حملے کی اجازت کی بات شروع ہوئی تو پیوٹن حسب روایت گوشہ تنہائی میں چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اٹیکم میزائل کا پہلا حملہ ہوا تو ہر طرف یہ بات کہی جا رہی تھی کہ جواب تو پکا ہے کیونکہ پیوٹن گوشہ تنہائی میں ہیں۔
روس کا جواب 21 نومبر کو آیا۔ اس جواب کے دو مناظر نے واضح کردیا کہ کہنے کو تو یوکرینی شہر ڈنپرو میں اسلحے کے ایک بڑے کارخانے پر روس کی طرف سے ایک عدد میزائل داغا گیا ہے مگر ہےیہ کوئی بالکل ہی الگ لیول کی چیز۔ہم سب نے ہی جنگوں کے دوران بھی میزائل اہداف پر گرتے دیکھے ہیں۔
اور دن اور رات میں میزائیلوں کی پرواز بھی دیکھ رکھی ہے۔ یوکرین پر داغے گئے میزائل کی جو ویڈیو قازقستان سے سامنے آئی ہے اس میں محض آگ کا ایک گولہ پرواز کرتا نظر نہیں آرہا۔ بلکہ آواز سے دس گنا رفتار سے پرواز کرنے والے اس میزائل نے وسیع پھیلاؤ رکھنے والے پلازمے کی سی شکل اختیار کر رکھی ہے۔
پھر جس ویڈیو میں اس کے وار ہیڈز ہدف پر گرتے نظر آرہے ہیں وہ منظر بھی بالکل یونیک ہے۔ یہ چھ وار ہیڈز والا میزائل تھا۔ اور ہر وارہیڈ میں چھ سب وارہیڈ تھے۔ جس کا مطلب ہوا کہ یہ مجموعی طور پر 36 وارہیڈز تھے۔یہ وارہیڈ چونکہ چھ چھ کے گروپ میں تھے سو سب گروپ کی صورت ہی ایک ہی بڑے ہدف کے مختلف مقامات پر گرتے نظر آئے۔ ان کے ہدف تک پہنچنے کے منظر سے یوں لگ رہا تھا جیسے اچانک چھ بار آسمان کا دروازہ کھلا اور پلک جھپکتے میں زمین پر کچھ پھینک دیا۔ اگر آپ نے یہ دونوں ویڈیوز نہیں دیکھیں تو ضرور دیکھئے۔
اس حملے نے یوکرینی کامیڈین زلنسکی کے ہوش ایسے اڑائے کہ بیان داغ ڈالا، ہم پر انٹرکانٹی نینٹل میزائل سے حملہ ہوگیا ہے۔ جب کامیڈین ملک کا صدر ہو تو ایسے احمقانہ بیان پر حیرت کیسی ؟ایک کامیڈین پپٹ کیا جانے کہ پڑوسی ملک پر کوئی براعظموں والی رینج کا میزائل کیوں داغنے لگا ؟ بیانی ردعمل امریکہ کا بھی آیا۔ پنٹاگون نے اپنے پپٹ کی تصحیح کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ انٹرمیڈیٹ رینج کا بلیسٹک میزائل تھا۔ اور پوری طرح تاثر یہ دیا گیا جیسے اپنے انٹیلی جنس اداروں سے ملنے والی رپورٹ پیش کر رہے ہوں۔
کچھ گھنٹوں بعد روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن اپنی تقریر کے ساتھ منظر عام پر آگئے۔ پیوٹن نے دنیا کو آگاہ کیا کہ یہ چونکہ “لائیو میزائل تجربہ” تھا لھذا قاعدے کے مطابق پڑوسی ممالک اور امریکہ کو اس تجربے سے پیشگی آگاہ کردیا گیا تھا۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ ہم انٹرمیڈیٹ رینج کے ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کرنے جا رہے ہیں۔ میزائل کی رینج پانچ ہزار کلومیٹر ہے اور یہ تین کلومیٹر فی سیکنڈز کی رفتار سے ہدف کی طرف بڑھتا ہے۔
پیوٹن نے واضح کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس ایسا کچھ بھی موجود نہیں جس سے وہ اس میزائل کا تدارک کرسکیں۔ پیوٹن نے یہ بھی واضح کیا کہ ابھی ہم نے کچھ مزید ہتھیاروں کے “تجربات” بھی کرنے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ میزائل حملہ ایک میسج تھا۔ سوال یہ ہے کہ میسج کیا تھا ؟ اور کس کے لئے تھا ؟ اگرچہ یہ پیغام مغربی اتحاد کے سرغنہ کے لئے بھی ہے۔ مگر اس کے اصل مخاطب یورپین ممالک ہی ہیں۔ کیونکہ اس نئے میزائل “اوریشنک” کی پانج ہزار کلومیٹر رینج یورپ کا احاطہ کرتی ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ پیغام کیا ہے ؟ تو پیغام یورپ کو یہ دیا گیا ہے کہ اپنے دفاع کے لئے امریکہ پر انحصار کی آپ کی 75 سالہ پالیسی فیل ہوگئی۔ سو اب اس کے اشاروں پر روس سے پنگے بازیاں بند کرنے میں ہی آپ کی عافیت ہے۔ ورنہ اوریشنک آپ کو کسی ردعمل کا موقع ہی نہیں دے گا۔
یہ میسج اس لحاظ سے اور خطرناک ہے کہ یہ میزائل ایٹمی میزائل ہے۔ یوکرین میں اس کے روایتی وارہیڈز کا نشانہ بننے والے بڑے کارخانے یوژماش کی تازہ تصاویر جاری نہیں کی گئیں۔ لیکن بتایا یہی جا رہا ہے کہ وہاں دھول مٹی کے سوا کچھ نہیں بچا۔ اس روسی پیغام میں بے پناہ اہمیت اس بات کی بھی ہے کہ روس نے پچھلے ہفتے ہی اپنی نیو کلیئر اسٹرائیک ڈاکٹرائن تبدیل کردی ہے۔ اب ہر وہ ملک روس پر حملے کا ذمہ دار مانا جائے گا جو اس گروپ کا حصہ ہو جس کے رکن ملک کی جانب سے حملہ ہوا۔ گویا یہ ضروری نہیں کہ امریکی اٹیکم میزائل حملے کا ردعمل صرف امریکہ کو ہی دیا جائے۔ جوابی وار میں ہدف کوئی یورپین ملک بھی ہوسکتا ہے۔
جاتے جاتے ایک اہم ممکنہ سوال کا جواب بھی دیتے جائیں۔ ممکنہ سوال یہ ہوسکتا ہے کہ جب امریکہ نے روس پر میزائل حملہ کیا تو اس کے ردعمل میں روس نے امریکہ کی بجائے پہلے سے زیر عتاب یوکرین کو ہی اوریشنک کا نشانہ کیوں بنایا ؟ سو خبر یہ ہے کہ روس نے یوکرین میں اسلحے کے جس بڑے کارخانے یوژماش کو نشانہ بنایا ہے، یہ سوویت دور کا کئی کلومیٹر پر محیط ایک بڑا کارخانہ تھا۔
حالیہ سالوں میں یہ کارخانہ امریکی اور یورپی اسلحہ سازوں کے تصرف میں آگیا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ روس نے وار ایسا کردیا ہے کہ نیٹو ممالک کسی کو یہ تک بتانے کے نہیں رہے کہ سرزمین بیشک یوکرین کی تھی مگر نشانہ خود وہ بنے ہیں۔
یہ سطور ہم روسی حملے کے تیسرے روز لکھ رہے ہیں۔ اس حملے کے بعد سے روس پر اٹیکم کا کوئی مزید حملہ تادم تحریر نہیں ہوا۔ دعاء کرنی چاہئے کہ ایسا نہ ہی ہو۔ یہ دعاء ان حالات میں اور بھی ضروری ہوجاتی ہے جب وائٹ ہاؤس پر ایک مخبوط الحواس 82 سالہ بڈھے کا قبضہ ہو۔