خیال اور حقیقت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 زندگی جب سے معرضِ وجود میں آئی ہے، متعدد جذبات و احساسات قلبِ انسانی میں جنم لیتے، مسکرانے یا رونے پر مجبور کرتے، تکلیف دیتے اور اٹکھیلیاں کرتے آئے ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر آج کے عہد تک جذبات کی چپقلش کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ کائنات کا وجود خیال پر ہے یعنی آپ جو سوچتے ہیں وہی آپ کی زندگی ہوتی ہے۔

محققین نے تحقیق سے اور علماء نے مطالعے سے صرف ایک ہی نتیجہ اخذ کیا کہ سوچ اور فکر کی انسانی زندگی میں اہمیت حقیقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے، بظاہریہ بات حیران کن اور بعض اوقات ناقابلِ یقین بھی محسوس ہوتی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ انسان ہمیشہ سے دو دنیاؤں میں جیتا آیا ہے جن میں سے ایک اس کیلئے اہم اور دوسری غیر اہم ہوتی ہے۔

ایک دنیا حقیقت کی دنیا ہے کہ آپ نے کیا دیکھا، کیا ہوا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟ اور دوسری دنیا آپ کے ذہن کی او ر آپ کے اندر کی دنیا ہے کہ جو کچھ ہوا اسے آپ کیسے دیکھتے اور اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر پوری دنیا ٹکی ہوئی ہے۔

کبھی کبھی لوگ کسی احمقانہ بات پر بھی خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں اور کبھی کبھی پورا گھر جل جانے کے باوجود اور بے سہارا ہوجانے کے باوجود انسان چٹان کی طرح مضبوط دکھائی دیتا ہے جس سے دنیا سبق سیکھتی ہے اور اسے عظیم انسان کہتی ہے کیونکہ ایسے لوگ ٹھوکر کھاکر اٹھتے ہیں، سنبھلتے ہیں اور پہلے سے زیادہ قوی ارادوں کے ساتھ زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے لگتے ہیں۔

آخر ایسی کیا بات ہے کہ کچھ لوگ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر بھی رونے لگتے ہیں اور کچھ لوگ بڑے بڑے مصائب ہنس کر سہہ لیتے ہیں؟ دراصل یہ زندگی کے تجربات سے حاصل کیا گیا سبق، بڑوں کی نصیحت یا دینی عقائد سے اخذ کی گئی رہنمائی ہوتی ہے جو انہیں مضبوط اور مستحکم بنا دیتی ہے اور یقین جانیں کہ ایسے لوگوں کی سب سے بڑی طاقت ان کے ہاتھوں میں موجود پیسہ، اپنا گھر، خون کے رشتے یا سیاسی و معاشی حالت نہیں بلکہ ان کا اپنا خیال اور اپنی ذہنی استعدادِ کار ہوتی ہے۔

اگر کسی بچے کو کوئی بڑا ہر وقت خیالات میں کھویا ہوا اور گم صم پائے تو اسے آنکھیں کھولنے اور حقیقت کا ادراک کرنے کی ترغیب دیتا اور یہ کہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ اگر تم شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپالوگے تو حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ مثلاً اگر کل تمہیں امتحان دینا ہے اور آج تم خواب و خیال میں کھوئے ہوئے ہو، تیاری نہیں کر رہے تو کل یقیناً فیل ہوجاؤ گے۔

ایک بچے کی مثال سامنے رکھیں تو اس کے والدین یا کسی بھی بڑے کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے کیونکہ اگر بچہ خیال پر حقیقت کو ترجیح نہ دے اور خیال کو ہی حقیقت سمجھ کر اپنی خیالی دنیا میں ہی کھویا رہے تو واقعی اس کی تعلیم کا ہرج ہوگا اور وہ کبھی کوئی ایسا شخص نہیں بن سکے گا جو اسے اس کے والدین یا بڑے بنانا چاہیں گے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ زندگی میں کوئی بھی اہم مقام حاصل کرنے میں ناکام ہوجائے گا تو یہ بات بھی بے جا نہیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم نے کچھ دیر قبل خیالات کو حقیقت پر ترجیح کیوں دی؟

دراصل خیال اور حقیقت ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ انہیں بعض صورتوں میں ایک ہی سکے کے دو رخ بھی قرار دیاجاسکتا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں یعنی ہر حقیقت سے نت نئے خواب تشکیل پاتے ہیں اور بے شمار خواب و خیال ایسے ہیں جنہیں آج ہم حقیقت کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔

تاریخ انسانی ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جب حقیقت نے خوابوں کو جھنجھوڑ دیا اور خیالات میں انقلاب برپا کردیا اور پھر وہی خیالات جو پہلے صرف ذہن کی رونق بڑھا رہے تھے، حقیقت میں ڈھل کر اس طرح سامنے آگئے کہ دنیا حیران رہ گئی۔

یہاں ایک مثال دینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل کیا ہوا تھا؟ مسلمانانِ برصغیر کو یہ خیال بہت پہلے سے ستا رہا تھا کہ وہ انگریز کے غلام ہیں اور انہیں آزاد ہونا چاہئے لیکن اس کیلئے جدوجہد کرتے کرتے دہائیاں بیت گئی تھیں اور یہ خیال کبھی حقیقت کا روپ نہ پا سکا۔

پھر شاعر مشرق علامہ اقبال نے دو قومی نظرئیے کو اپنے اشعار سے نئی سمت عطا کی جس کے بعد قائد اعظم نے کھل کر کہا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔ یہ کبھی ایک نہیں ہوسکتیں۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال اس خیال پر متفق تھے کہ یہ دو قومیں کبھی ایک نہیں ہوں گی لیکن حقیقت کیا تھی؟ حقیقت اگر اس خیال سے مختلف ہوتی تو ان کا خیال کبھی حقیقت بن ہی نہیں سکتا تھا، لہٰذا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے یہ نیا خیال اپنے ذہنوں میں بسا لیا کہ ایک ایسی مسلم ریاست تشکیل دی جاسکتی ہے جہاں مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقائد پر آزادی سے عمل پیرا ہونے کی آزادی حاصل ہو۔

اگر وہ گائے کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھائیں تو اس کے جواب میں انہیں قتل نہ کردیا جائے۔ اگر وہ نماز پڑھنے کیلئے مسجد چلے جائیں تو کوئی باجے بجا کر انہیں اذیت نہ دے۔ کوئی بتوں کی پوجا اور بندے ماترم کے ترانے گانے پر مجبور نہ کرسکے۔

یہ صرف اور صرف ایک خواب تھا جسے حقیقت کی صورت دینا کسی بھی طرح ممکن نہیں تھا لیکن قائد اعظم کی فکر اتنی گہری اور خیال اتنا پختہ تھا کہ انہوں نے اللہ پر غیر متزلزل یقین اور خلوصِ نیت سے پوری قوم کو اس ایک خیال کے پیچھے چلنے کیلئے راضی کر لیا۔ اگر اکیلے قائد اعظم ہی یہ سوچ رہے ہوتے تو خیال شاید اتنا پختہ نہ ہوتا لیکن پوری قوم نے مل کر ایک ہی خیال پر سوچنا شروع کردیا کہ یہ ناممکن لگتا ہے لیکن ہے نہیں۔ اگر اللہ چاہے تو کسی بھی مشکل کو ٹال سکتا ہے۔ جس نے مشکلات دی ہیں وہی انہیں دور بھی کرے گا۔

یہ وہ یقین تھا جو سالہا سال کے پختہ خیالات سے پیدا ہوا اور پھر مسلسل جدوجہد نے اسے حقیقت کا روپ دے دیا۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا۔ اگر مسلمان صرف حقیقت پر غور کرتے تو پاکستان کبھی حاصل نہیں کرسکتے تھے کیونکہ حقیقت تو یہ تھی کہ انگریز قوم برسہا برس سے ان پر حکومت کر رہی تھی اور مسلمانوں پر بد ترین مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ اگر انگریز چلے بھی جاتے تو ہندو قوم مسلمانوں کی آقا بن بیٹھتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے صرف ایک خیال اور صرف ایک خواب پر بھروسہ کر لیا تھا لیکن بھروسہ اتنا پختہ تھا کہ وہ حقیقت میں ڈھل کر رہا۔

حقیقت وہ ہے جو آپ کو نظر آرہی ہے جو واقع ہوچکی اور جسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن خیال ہماری سوچ اور ہمارے ارادوں کا نام ہے۔ کوئی اپنا وفات پا جائے تو ہمارے خیالات غمگین اور اگر کسی پیارے کو کوئی کامیابی مل جائے تو ہمارے خواب رنگین ہوجاتے ہیں۔

آگے بڑھنے کی خواہش حقائق کو سامنے رکھ کر ہی پوری کی جاسکتی ہے لیکن اگر اپنے خیالات کو ہی اہمیت نہ دی جائے تو حقائق بھی بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اگر آپ کو بھی زندگی میں آگے بڑھنا ہے اور ترقی کرنی ہے، کوئی دینی کام کرنا ہے، کوئی ادارہ تعمیر کرنا ہے یا کوئی ملازمت اختیار کرنی ہے جو آپ کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکے تو اپنے خیالات کو اہمیت دینا سیکھئے۔ حقیقت کو اپنے حق میں بدلنا اس سے آگے کی منزل ہے جو خیالات کو اہمیت دینے سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

Related Posts