کچے کی حقیقی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 کچے کے علاقہ ان دنوں ایک بار پھر پورے ملک میں موضوع بحث ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہاں پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ اور آلات ڈاکوؤں کے پاس ہیں اور شرمناک بات تو یہ ہے کہ ڈاکوؤں نے کروڑوں روپے بکتر بند گاڑی پر گولیاں برساکر ناصرف پولیس اہلکار وں کی جان لی بلکہ واقعہ کے بعد بکتر بند پر ڈانس کرتے ہوئے ویڈیووائرل کرکے انتظامیہ کو ایک طمانچہ مارا ہے جس کا نشان شائد برسوں تک نہیں مٹ سکے گا۔

کچے کی بات کی جائے تویہ سندھ کے علاقے جیکب آباد، کشمور، کندھ کوٹ، شکار پور، لاڑکانہ، گھوٹکی، قمبرشہداد کوٹ اور دادو پرمشتمل ہے، شکار پور کو کچے کے ڈاکوؤں کا مرکز سمجھا جاتا ہے، بیشتر اضلاع کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں ، دریا کے دونوں اطراف کے علاقوں کو کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔1980ء سے ان علاقوں میں ڈاکو راج قائم ہے، یہاں چاچڑ، جاگیرانی، تیغانی اور بجرانی سمیت دیگر سندھی قبائل موجود ہیں۔

یہاں کے ڈاکو تقریباً 1980ء سے اغواء برائے تاوان، قتل، چوری ڈکیتی سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہیں، تقریباً ڈیڑھ سال قبل سابق ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان نے سابق آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کے حکم پر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی موجودگی ، سرپرستی اور ٹھکانوں کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ تیار کی تھی جس میں ڈاکوؤں کی سیاسی سرپرستی اور ٹھکانوں کے حوالے سے مکمل تفصیلات شامل تھیں۔

ڈاکٹر رضوان نے اپنی رپورٹ میں ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنیوالے قبائلی سرداروں اورسیاسی رہنماؤں کے نام بھی بتائے تھے اور انہوں نے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں سیاسی شخصیات کے حصے کے حوالے سے بھی انکشافات کئے تھے۔

سابق آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کو پیش کی گئی اس رپورٹ میں سندھ حکومت کے اہم وزیر امتیاز شیخ کو ڈاکوؤں کا سرپرست قراردیاگیا تھا جس کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ سے سختی ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور سابق ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان کو سزاء کے طور پر صوبہ بدر کردیا گیا۔سندھ حکومت نے اس رپورٹ پر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اپنے سیاسی رہنماؤں کو بچانے کی غرض سے رپورٹ کو بھی جھوٹا قرار دیدیا ۔

سردارتیغو خان تیغانی کی بات کی جائے تو یہ تیغانی قبائل کے سردار ہیں اور ذرائع کے مطابق کچے کے علاقے میں 10 سے زائد ڈکیت گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں ، اس سے پہلے بھی ان پر کئی مقدمات قائم ہیں لیکن آج سے ڈیڑھ سال قبل سندھ پولیس نے انتہائی متنازعہ اقدام اٹھاتے ہوئے سردار تیغو خان تیغانی کو امن کا ایوارڈ دیا اور شرمناک بات تو یہ ہے کہ سندھ پولیس کا اولین امن ایوارڈ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی رینک کے افسران نے رات کی تاریکی میں ان کے گھر جاکر دیا تھا۔

اب اسی سندھ پولیس کی جانب سے گزشتہ 5 روز سے کچے میں جاری آپریشن کے دوران سردار تیغو خان تیغانی کو گرفتار کرلیا گیا ہے اوران کو کراچی میں دوبیٹوں سمیت حراست میں لیا گیالیکن ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ سردار تیغوخان پر بننے والے مقدمات انتہائی کمزور ہیں جن میں انہیں باآسانی رہائی مل جائیگی۔

کچے میں آپریشن اب بھی جاری ہے اور سندھ اور وفاق کچے میں آپریشن کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر تیار نہیں ہیں، وفاق چاہتا ہے کہ کچے میں رینجرز کو مکمل اختیار کے ساتھ آپریشن کیلئے اتارا جائے لیکن سندھ حکومت وفاق کی تجاویز ماننے کیلئے تیار نہیں ہے اور سندھ حکومت نے آپریشن کے دوران ہی پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے بھی کردیے ہیں۔

اگر حالیہ آپریشن کی بات کی جائے تو کچے کا علاقہ سرحدی ہے جہاں دونوں صوبوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اور سندھ حکومت اپنی طرف سے پولیس جبکہ پنجاب حکومت اپنی حدود میں رینجرز کی مدد سے آپریشن کرواہی ہے لیکن تیسرا اہم سرحدی علاقہ جو جیکب آباد سے بلوچستان سے متصل ہے وہاں کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔

اس حوالے سے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ کچے کے اہم ڈکیت گروہ بذریعہ جیکب آبادبلوچستان فرار ہوچکے ہیں اور اس سے پہلے بھی یہاں کئی بار آپریشن ہوچکے ہیں اور حالیہ آپریشن بھی تاحال کامیابی سے ہمکنار ہوتا دکھائی نہیں دیتا ، حالیہ آپریشن میں بھی اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور آپریشن میں رہنمائی کرنیوالے افسران کی جانب سے یہی بتایا جارہا ہے کہ کچے کے علاقے میں اب صرف ڈاکووں کے ٹھکانوں کو ہی مسمار یا جلایا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ کوئی اہم ڈاکو پولیس کی گرفت میں نہیں آسکا اور سندھ حکومت آپریشن کی کامیابی کیلئے سنجیدہ بھی دکھائی نہیں دیتی حالیہ تیزی کی وجہ میڈیا پر اس معاملے کا اجاگر ہونا ہے اور شنید یہ ہے کہ میڈیا پر گرد بیٹھنے کے بعد ایک بار پھر وہی کچے کے علاقے ہونگے اور وہی ڈاکو راج ہوگا۔

Related Posts