دنیا بھر میں اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کی 88ویں سالگرہ کی خوشیاں 13 دسمبر کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوچکی ہیں۔ آج کا سورج طلوع ہوتے ہی خوشیوں کی کرنیں بکھیرتا ہوا یہ نویددیتا ہے کہ آج کا دن انسانی ارتقاء اور جستجو سےبھرپور ہے۔یہ اس عظیم ہستی کایومِ پیدائش ہی ہے کہ جس نے دنیا کی ایک ایسی شخصیت کے جنم کی خوشخبری سنائی جو آگے چل کر نہ صرف اسماعیلی برادری کیلئے مسرت کا منبع ثابت ہوئی بلکہ اس نے دنیا بھر میں انسانی ہمدردی اور فلاح و بہبود سے بھرپور اور خدمت خلق سے لبریز کارہائے نمایاں سرانجام دئیے، جن کی مدد سے حیاتِ انسانی کی پریشانیاں، تکالیف اور دکھ درد کم ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔
یہ وہی شخصیت ہے جس نے کہ منصب امامت سنبھالتے ہی انسانی تعمیر وترقی کا وہ تصور دیا جس میں بلا تفریقِ رنگ و نسل اور بلاامتیازِ مذہب و عقیدہ ، رئیس و مفلس سب کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے د نیا کے کئی براعظموں میں وہ کام کر دکھایا کہ جس سے عوا م الناس نے پنے اندر ایک جو ش و ولولہ محسوس کیا، جو کہ انسانی زندگی کو مثبت سمت کی جانب گامزن ہونے کیلئے ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال وطن عزیز پاکستان کے شمالی و جنوبی علاقوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب اس روشن خیال شخصیت نے ، جو کہ پوری دنیا میں پرنس کریم آغا خان کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے، 1960ء میں اپنے شمالی علاقہ جات کے دورے کے دوران اپنے ایک گولڈن جوبلی اسکول کی بنیاد رکھی ، تویہ اسکول ابتدائی طور پر وہ علامت ثابت ہوا جوپورے گلگت بلتستان کیلئے منارۂ نور سے کم نہ تھی ، جہاں اس وقت صرف 3فیصد آبادی تعلیم یافتہ تھی اور آپ نے اپنی مسلسل کوشش و کاوش، منصوبہ بندی اور جہدِ مسلسل سے اس خطے کی شرح خواندگی 97فیصد تک پہنچا دی۔ تعلیم کی اس چمکتی دمکتی مشعل نے گلگت بلتستان کے تمام علاقہ جات میں وہ روشنی بکھیری کہ آج کوئی بھی گھر ناخواندہ نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ وہاں اب کوئی بے روزگار بھی نہیں!
اس خطے کے سادہ لوح اور مہمان نواز افراد سن 60ء کی دہائی میں مفلسی کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے جو آج اپنے پیروں پر کھڑے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے اور اپنی بے مثل محنت اور لگن کے ساتھ کی گئی کاوشوں سے سبز ہلالی پرچم کی حامل اس قوم کے مستقبل کو تابناک بناتے نظر آتے ہیں۔ اگر جنوب کی مثال لیں تو کراچی اور صوبہ سندھ میں تعلیم و صحت کے ایسے مراکز قائم ہوئے جو کہ دنیا کے نمایاں اداروں میں شامل ہیں ، اور جہاں نہ صرف مسیحائی کا بے مثال عملی نمونہ پیش ہوتا نظر آتا ہے بلکہ طب کی بے مثال اور معیاری تعلیم کے سبب آغا خان ہیلتھ سروسز ، جس نے اپنے انسانی ہمدردی، خدمت اور صحت کی سہولیات پہنچانے کے جس عظیم الشان مشن کا آغاز 1920 ء کی دہائی میں کیا تھا، ااور آج دنیا کے مختلف ممالک میں 575 ایسے ہیلتھ کیئر سینٹرز کے ساتھ دن رات مفلوک الحال عوام کی خدمت میںمصروف ہے جنہیں عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے اور جو ایسے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں تک بسا اوقات انسانی رسائی بھی انتہائی مشکل بلکہ ناممکن سمجھی جاتی ہے ۔آغا خان ہیلتھ سروسز اور آغا خان یونیورسٹی مل کرپاکستان سمیت 940ہسپتالوں اور اسی قسم کے ہیلتھ کیئر سینٹرز کا انتظام و انصرام سنبھالتے اور مریضوں کی ہر ممکن دلجوئی، معاونت اور دیکھ بھال کے فرائض انجام دیتے ہیں ، جن کا ماضی میں تصور تک محال تھا کہ یہ محترم پرنس کریم آغا خان کے دیرینہ خواب کی تعبیر اور آپ کی انمول بصیرت کے مرہون منت شعبہ جات میں سے ایک ایسا نمایاں اور قابل دید شعبہ ہے جو نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ بھارت،کینیا، کرغزستان، شام، تاجکستان، تنزانیہ اور یوگنڈا جیسے ممالک میں بھی عوام کی بے لوث خدمت میں ہمہ تن مصروف ہے، اور بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ہر سال لاکھوں مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ وہ افراد جو اپنی مالی مشکلات کے سبب اپنے علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے ، ان کیلئے مختص رقوم سے کثیر تعداد میں لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے اور یہ رواں برس کی ہی بات ہے کہ تقریباً7 ارب روپے تنگدست مریضوں کے علاج معالجے کی معاونت پر خرچ کیے گئے۔
یہ پرنس کریم آغا خان چہارم ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں بسنے والے مفلوک الحال اور خود کو کم مایہ اور بے وقعت سمجھنے والے لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ اپنی زندگی کو ایک روشن اور تابناک مستقبل کی جانب گامزن کرنے کیلئے میں کس کس مروجہ طریقہ کار کے تحت کیا کیا اقدامات اٹھا سکتے ہیں اور اپنے اندر وہ صلاحیت ابھار سکتے ہیں جو انہیں زندگی کے ہر مرحلے میں کامیاب و کامران کرسکے، اور یہی وجہ ہے کہ پرنس کریم آغا خان، نکاسی و فراہمئ آب ہو یالوگوں کو ہنر اور تعلیم سے آراستہ کرنے کی بات اور کئی دیگر کارہائے زندگی میں اپنے مخصوص انداز اور گراں مایہ منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ اس طرح معاونت کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگ اپنی ہی صلاحیت میں نمایاں تقویت محسوس کرتے ہوئے اپنے علم و ہنر اور صلاحیت کو اس مقام تک لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ کہ معاشرے میں ان کے وجود سے مثبت تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے، جس کا اعتراف نہ کرنا اور آغا خان جیسی انسان دوست شخصیت کی کاوشوں کو نظر انداز کرنا کسی ناقابلِ معافی جرم سے کم نہ ہوگا۔
صدر آغا خان یونیورسٹی ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین کا کہنا ہے کہ جامعہ نے کورونا وباء کے دوران انسانیت کی عظیم خدمت کرتے ہوئے عالمی وباء کا سامنا کرنے میں دکھی انسانیت کی مدد کرنے والے دیگر اداروں کی سربراہی اورپاکستان میں 2022ء میں آنے والے تباہ کن اور جان لیوا سیلاب کے دوران 4 لاکھ سیلاب متاثرین کو صحت کی دیکھ بھال سے متعلق سہولیات فراہم کیں اور آج بھی انسانیت کی خدمت کا یہ عظیم الشان سلسلہ جاری و ساری ہے جس سے لاکھوں غریب اور مفلس و نادار افراد فیضیاب ہورہے ہیں جس کے دوران محترم آغا خان کی ولولہ انگیز ، انقلاب آفرین اور بے مثال قیادت، انسانیت کی خدمت کے اتنے بلند معیارات قائم کرنے میں مصروفِ عمل ہے جن کی تاریخ انسانی میں شاذو نادر ہی کوئی مثال دستیاب ہو، بقول م ش نجمی:
ہم اپنی منزلوں کا آپ ہی نقشہ بناتے ہیں
چٹانیں کاٹ کر اپنے لیے رستہ بناتے ہیں
غزہ میں پے درپے فضائی و زمینی حملوں اور ہزاروں خواتین اور بچوں سمیت تقریباً45 ہزار مظلوم فلسطینیوں کی شہادتوں اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد رواں برس ستمبر کے دوران اسرائیل نے لبنان پر بھی چڑھائی کردی جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد شہید ہوئے اور آج شام کی صورتحال بھی کشیدہ ہے جہاں باغیوں نے صدر بشار الاسد کو ملک چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کردیا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے فلسطین اور لبنان کے بعد شام میں بھی اپنے فوجی داخل کیے جہاں روتی بلکتی اور تکلیف سے سسکیاں بھرتی انسانیت کو آج جتنی ہمدردی، مالی امداد اور طبی معاونت کی ضرورت ہے، شاید ہی کبھی ماضی میں پڑی ہو ۔
اے کے ڈی این کا کہنا ہے کہ شام میں آغا خان فاؤنڈیشن 7 ہزار کسانوں کو تکنیکی امداد مہیا کرتے ہوئے نت نئی ٹیکنالوجیز سیکھنے اور عملدرآمد کی ترغیب دے رہی ہے۔ جنگ زدہ علاقے میں اے کے اے ایچ کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں جس نے 150 سے زائد اسکولوں کو تباہی و بربادی سے نمٹنے کی تربیت دیتے اور آگ بجھانے کے آلات مہیا کرتے ہوئے ابتدائی طبی امداد کی کٹس بھی فراہم کرکے سیکڑوں جانیں ضائع ہونے سے بچائیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن نے 9 ہزار بچوں کو تعلیم سمیت دیگر سہولیات مہیا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ 19 ہزار متبادل تعلیمی ادارے قائم کیےا ور سلامیہ کے علاقے میں 9 ہزار 200 درخت لگانے کیلئے اہل علاقہ کے ساتھ مل کر کام کیا۔
نہ صرف اسماعیلی برادری محترم آغا خان کو ان کی انسانیت کیلئے غیر متزلزل خدمات پر خراجِ تحسین پیش کررہی ہے بلکہ آج دنیا کی درجنوں متمول اور جانی پہچانی شخصیات جناب آغا خان کو سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط ان کے کارہائے نمایاں کو شاندار الفاظ کے ساتھ یاد کر رہی ہیں جبکہ اپنی پوری زندگی میں محترم آغا خان نے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال سمیت انسانی تعمیروترقی کے دیگر شعبہ جات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امن اور تکثیریت کے فروغ کیلئے اپنی گراں قدر کاوشوں سے ایک بے مثل اور لازوال انسان دوست عالمی شخصیت کے طور پر جو شہرت پائی، وہ ان کی کاوشوں اور خدمات کی حقیقی قدروقیمت کا عشر عشیر بھی نہیں۔ دوسری جانب سماجی ذمہ داری ہو یا انسانی وقار، ان کیلئے آغا خان کا گہرا عزم و حوصلہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اور گلوبل سینٹر فار پلولرزم کے کاموں میں جھلکتا ہے۔ آغا خان کی سالگرہ ہمیں ہماری مشترکہ انسانی خدمات کی یاد دلاتی ہے۔ ان کی سالگرہ کے موقعے پر دنیا بھر کی اسماعیلی برادری اور مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر کے کئی سربراہان مملکت اور وزرا سمیت دیگر شخصیات ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیںخوشی، تندرستی اور آئندہ آنے والی زندگی کی آسائشوں کی دعا دیتے نظر آتے ہیں۔