ویب 3.0 کا آغاز، دُنیا کس طرف جا رہی ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ نے بے پناہ ترقی کی ہے جو ہمیں اس وقت نظر آتی ہے جب ہم گھنٹوں کا کام منٹوں اور اب سیکنڈز میں کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ناممکن کام بھی ممکن بن جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر 90 کی دہائی میں سامنے آنے والے انٹرنیٹ کو ویب 1.0 کہا جاتا ہے جس میں صارفین کو بہت کم سہولیات اور سہولیات فراہم کرنے والوں سے رابطے کی کم ہی آزادی میسر تھی۔ ویب سائٹس صرف الفاظ یا تصاویر کی صورت میں نظر آیا کرتی تھیں۔معلومات تو حاصل کی جاسکتی تھیں، لیکن خود کچھ کرنا بے حد مشکل نظر آتا تھا۔ 

انٹرنیٹ کی رفتار بھی بے حد سست ہوا کرتی تھی۔ پھر ویب 2.0 کی آمد ہوئی تو صارفین حیرتوں کے نئے جہان سے متعارف ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویب 1.0 صرف ریڈ۔اونلی ویب سائٹس پر مشتمل تھا یعنی آپ پڑھ سکتے تھے جبکہ لکھنے کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہی میسر تھی۔

بعد ازاں 2000کی دہائی کی ابتدا میں ہی ویب 2.0 سے تعارف حاصل ہونے کے بعد صارفین نہ صرف خود ایک دوسرے سے رابطہ کرنے لگے بلکہ مواد بھی تخلیق کرکے انٹرنیٹ پر ڈالا جانے لگا۔ مثال کے طور پر یو ٹیوبرز، ٹک ٹاک اسٹارز اور دیگر سوشل میڈیا انفلؤنسرز کو سامنے رکھئے تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔

صارفین کو اپنی مرضی سے نہ صرف مواد تخلیق کرنے کی آزادی ملی بلکہ لوگوں نے اپنی ویب سائٹس اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی بنائے۔ یو ٹیوب چینلز اور فیس بک پیج بنانا تو بہت چھوٹی سی بات ہے، اپنی ویب سائٹ اور اپنے ای کامرس ویب اسٹورز بنا کر بے شمار افراد نے لاکھوں ڈالرز کمائے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ویب 2.0 کے بعد اب ویب 3.0 کی آمد آمد ہے، اس لیے انٹرنیٹ صارفین کو اس کیلئے ذہنی طور پر تیار ہونا ہے، نہیں تو بڑی مشکل ہوجائے گی کیونکہ دنیا پلک جھپکتے میں آپ سے میلوں یا کوسوں نہیں بلکہ شاید کچھ لاکھ نوری سال کے حساب سے دور چلی جائے۔

دنیا کی تیز رفتار ترین چیز روشنی کو سمجھا جاتا ہے جو سورج سے زمین تک کا کروڑوں کلومیٹرز کا فاصلہ 8 منٹ میں طے کر لیتی ہے۔ یہی روشنی اگر کوئی فاصلہ طے کرنے میں 1سال لگا دے تو اس فاصلے کو 1 نوری سال کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ اتنے طویل فاصلے کو اعداد میں لکھنا بڑا دقت طلب کام ہے۔

تو ہم بات کررہے تھے ویب 3.0 کی کہ اس میں کون کون سی نئی چیزیں سامنے آنے والی ہیں جو ویب 2.0میں کبھی سامنے نہیں آئیں تو سب سے بڑی بات اس کا غیر مرتکز نظام (ڈی۔سنٹرالائزڈ سسٹم) اور بلاک چین ٹیکنالوجی ہے۔ این ایف ٹیز اس کا بہت چھوٹا سا حصہ ہیں۔

سادہ الفاظ میں سمجھئے تو ویب 2.0 میں نظام بظاہر تو آزاد تھا لیکن حقیقی آزادی پھر بھی نہیں تھی۔ مثلاً فیس بک پیج یا یو ٹیوب چینل پر آپ مواد یا ویڈیوز تو اپ لوڈ کرسکتے ہیں لیکن قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر کب آپ کا پیج یا چینل بند کردیا جائے، اس کا کچھ پتہ نہیں تھا۔

دوسری جانب آپ اپنی ویب سائٹ یا ای کامرس اسٹور تو چلا رہے تھے، لیکن ایک تو اس کی سالانہ فیس ادا کرنی پڑتی تھی اور دوسری جانب آپ کا ہوسٹ کب تکنیکی خرابی کا بہانہ بنا کر ہوسٹنگ کا کاروبار ہی بند کردے ، کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا۔

ڈی سنٹرالائزڈ سسٹم میں یہ چیزیں نہیں ہوسکتیں۔ ویب 3.0 میں بلاک چین ٹیکنالوجی کے تحت صارفین کا ڈیٹا اس طرح محفوظ کیا جائے گا کہ ہیکرز کیلئے اس ڈیٹا تک پہنچنا یا چوری کرنا بے حد مشکل ہوجائے گا۔ این ایف ٹیز کی طرح ویب سائٹس اور صارفین کا تخلیق کیا گیا مواد مکمل طور پر ان کی اپنی ملکیت ہوگی جس پر کسی اور کی اجارہ داری نہیں ہوگی۔

تکنیکی اعتبار سے ویب 3.0 کو ریڈ، رائٹ اور ایگزیکیوٹ ویب قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی ڈومینز اَن اسٹاپ ایبل ہوں گی یعنی جو ڈومین آپ نے خرید لی، وہ ساری زندگی آپ کی رہے گی جب تک آپ خود اسے کسی اور کو فروخت نہ کردیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی بہت آگے جانے والی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویب 3.0 کے نظام میں مشین لرننگ اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جائے گا جو عالمی دماغ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے صارفین کے مواد کو تصوراتی اور سیاق و سباق کے حساب سے پراسیس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک اور چیز انٹرنیٹ آف تھنگز کا استعمال ہے یعنی ویب 3.0 میں آپ کو انٹرنیٹ کیلئے کمپیوٹر یا کسی اسمارٹ ڈیوائس کی ضرورت نہیں پڑے گی اور لوگ انٹرنیٹ سے کسی بھی وقت اور  کسی بھی جگہ بغیر کسی کمپیوٹر کے منسلک ہوسکیں گے۔

اہم چیز یہ بھی ہے کہ ویب 3.0 میں تھری ڈی گرافکس کا استعمال کیا جائے گا جو آج کل ہم گیمز، ورچؤل ٹؤرز اور ای کامرس میں پہلے ہی دیکھ رہے ہیں۔

میٹا ورس کا تصور بھی اہم ہے۔ ویب 3.0 میں میٹا ورس سے مراد ایک لامحدود قسم کی ورچؤل دنیا ہے جس میں تھری ڈی آبجیکٹس کو نہ صرف چھوا بلکہ بعض یوٹیوبرز کے بیانات کے مطابق محسوس بھی کیا جاسکے گا۔

نئے ویب 3.0 سسٹم کے تحت پیسوں کا لین دین بھی غیر مرتکز ہوگا جس میں پیر ٹو پیر ڈیجیٹل لین دین کیا جائے گا جس میں اسمارٹ معاہدے اور کرپٹو کرنسی کا استعمال شامل ہے۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہم ویب 3.0 کے کچھ عناصر کو تو ضرور ملاحظہ کررہے ہیں جن میں این ایف ٹی، بلاک چین گیمز اور ڈسٹریبیوٹڈ لیجرز کے علاوہ اے آر کلاؤڈ شامل ہیں۔

بدقسمتی سے ویب 3.0 کے ضمن میں بہت سا کام ہونا ابھی باقی ہے۔ خاص طور پر اسپیچ ریکوگنیشن کا معاملہ اہم ہے کیونکہ ویب 3.0 کے صارفین چاہیں گے کہ ان کے الفاظ پہچان کر ان پر من و عن عمل بھی کیا جائے۔

تین اہم نکات جو ویب 1.0 سے لے کر 3.0 تک ایک جیسے ہیں وہ یہ ہیں کہ ویب کے یہ تینوں ورژنز معلومات اور صارفین کے مابین تعلق سے منسلک ہیں، معلومات حاصل کرنا تینوں ورژنز میں اہم ہے اور تمام ویب ورژنز صارفین کو ان کے کاموں کیلئے انٹرنیٹ پر انحصار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

کچھ انٹرنیٹ پنڈتوں کی پیشگوئی ہے کہ ویب 3.0 کے بعد ویب 4.0 بھی متعارف کرانا باقی ہے جس میں صارفین کو جسمانی طور پر انٹرنیٹ میں شامل کیا جائے۔ یہاں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کوئی چیز متعارف کرانا یا تو بڑا زبردست آئیڈیا یا پھر انتہائی خوفناک خواب ثابت ہوگا۔

ویب 4.0 کا تعارف کم از کم اِس وقت تک ہم سے عشروں کی دوری پر ہے کیونکہ تاحال ویب 3.0 مکمل طور پر ہمارے سامنے نہیں جبکہ آئی ٹی کی دنیا ویب 3.0 کو انٹرنیٹ صارفین کے سامنے لانے کیلئے بے قرار اور بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ورلڈ جیسے تصورات پر تیزی سے کام جاری و ساری ہے۔

Related Posts